اسلام آباد(نیوز ڈیسک) عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) نے پاکستان کی تجارتی پالیسی کے بارے میں تیار کردہ رپورٹس کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے تاکہ ممبر ممالک کے تحفظات و اعتراضات دور کیے جاسکیں،ذرائع نے بتایا کہ ڈبلیو ٹی او کے اجلاس میں پاکستان کی تجارتی پالیسی کا جائزہ لینے کے حوالے سے پہلا سیشن مکمل ہوچکا ہے، دستیاب دستاویز کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی منظوری سے سیکریٹری کامرس شہزاد ارباب کی سربراہی میں اعلی سطح کا وفد ڈبلیو ٹی او اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کررہا ہے، وفد میں وزارت تجارت کے جوائنٹ سیکریٹری ڈبلیو ٹی او میاں اسد حئی الدین کے علاوہ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے نمائندے شامل ہیں۔وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ ڈبلیو ٹی او ہر 4 سال بعد پاکستان کی تجارتی پالیسی کا جائزہ لیتی ہے اور اس کیلیے حکومت پاکستان کی طرف سے رپورٹ تیار کرکے ڈبلیو ٹی او بھجوائی جاچکی ہے جبکہ دوسری رپورٹ ڈبلیو ٹی او نے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر تیار کی ہے جس میں پاکستان کی تجارتی پالیسی کا جائزہ لیا گیا ہے اور جنیوا میں جاری ڈبلیو ٹی او کے اجلاس میں ان دونوں رپورٹس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈبلیو ٹی او کی جانب سے پاکستانی تجارتی پالیسی کے بارے میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ڈبلیو ٹی او کی جانب سے گزشتہ تجارتی پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد سے لے کر اب تک 58 اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے کیسز میں تحقیقات شروع کیں، پاکستان میں جو تجارتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ صحت، سیفٹی، سیکیورٹی، اخلاقی اور ماحولیاتی وجوہ کی بنا پر عائد کی گئی ہیں اور اس کیلیے پاکستان کی طرف سے اپنائے جانیوالے اسٹینڈرز (معیارات) زیادہ تر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں۔رپورٹ میں کہا گیاکہ پاکستان پابند ہے کہ متفرق ڈیوٹی اور چارجز کو صفر کرے مگر 284 زرعی اشیا پر 5 فیصد ریگولیٹری امپورٹ چارجز لاگو ہیں تاہم گزشتہ اقتصادی پالیسی کے جائزہ سے لے کر اب تک حکومت پاکستان کی جانب سے کسٹمز پروسیجرز کو جدید بنانے کیلیے متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اس کے علاوہ درآمدات پر کسٹمز ڈیوٹی کے علاوہ سیلز ٹیکس بھی عائد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی جانب سے محتاط لبرالائزیشن کے باوجود مجموعی طور پر ٹیرف کی شرح زیادہ ہے جس کے باعث پیداواری گروتھ کمزور ہوئی ہے، ایس آر اوز کے تحت ایڈہاک تجارتی پالیسی بھی معمول کی بات رہی ہے جس کے باعث تجارتی ریجیم کے بارے میں کسی قسم کی پیشگوئی کرنا مشکل رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق برآمدات اور پیداوار عمومی اور سیکٹورل پروگرام کے تحت رہی جن کے تحت ٹیکس چھوٹ، رعایت اور ڈیوٹی ڈرا بیک جیسی سہولتیں دی گئی ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کی جانب سے پیش کی جانیوالی رپورٹ میں کہا گیاکہ بجلی کی شدید قلت اور بہت زیادہ قیمتیں پاکستانی معیشت کیلیے سنگین مسائل ہیں اور پاکستان میں پاور جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کا نظام بہت غیرموثر ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ جائزہ سے لے کر اب تک تجارت کو آزاد بنانے کیلیے بھی پاکستان نے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے 2014-15 میں ڈبلیوٹی او کے ایم ایف این ریٹس 14.3 کا فیصد اطلاق کیا ہے جبکہ وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ٹی او کے اجلاس میں جائزے کی روشنی میں دیگر ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری ودیگر معاملات پرفیصلے کریں گے۔