اسلام آباد (نیوز ڈیسک) من پسند شخص کو عہدے پر مقرر کیے جانے کے خدشات کے دوران حکومت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین کے عہدے کیلئے مقررہ اہلیت کے معیار میں کمی کر دی ہے۔ حکومت کی جانب سے حال ہی میں شایع کرایا جانے والا اشتہار گزشتہ سال شایع کرائے گئے اشتہار کے مقابلے میں مختلف ہے، جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق نئے اشتہار میں اہلیت کے معیار میں واضح تبدیلی کی گئی ہے۔ 2014ءمیں تقرری کا طریقہ کار درست ثابت نہ ہوسکا جس کے بعد اب سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس عہدے کیلئے دوبارہ اشتہار دیا گیا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے گزشتہ سال جاری کیے گئے اشتہار میں عہدے کے امیدوار کیلئے اہلیت کا معیار یہ تھا کہ اس کے پاس ہائر ایجوکیشن کمیشن کی منظور شدہ یونیورسٹی سے ایم اے، ایم ایس سی، ایم بی اے ہو یا پھر اس کے پاس ایل ایل بی یا ایل ایل ایم کی مقامی یا پھر بین الاقوامی ڈگری ہو۔ 2015ءمیں شایع کرائے گئے اشتہار میں وزارت اطلاعات کی جانب سے جاری کیے گئے اشتہار میں امیدوار کی اہلیت کا معیار یہ ہے کہ اس کے پاس میڈیا سائنسز، بزنس مینجمنٹ، فنانس، اکنامکس یا قانون کے کلیہ میں صرف بی اے یا بی ایس سی کی ڈگری ہونا چاہئے۔ 2015ءمیں امیدوار کی عمر کی حد 50 سے 61 سال مقرر کی گئی ہے جبکہ 2014ءمیں یہ حد 50 سے 65 برس تھی۔ 2014ءمیں مشتہر کیا گیا تھا کہ امیدوار کا تقرر سپریم کورٹ کے حکم / فیصلے میں وضح کردہ طریقہ کار اور رہنمائی کے مطابق کیا جائے گا لیکن، 2015ءکے اشتہار میں کسی عدالتی فیصلے کا ذکر نہیں۔ تازہ اشتہار میں بتایا گیا ہے کہ امیدوار کا تقرر سول اسٹیبلشمنٹ کوڈ 2007 میں حکومت پاکستان کی جانب سے وضح کردہ طریقہ کار کے مطابق ہوگا۔ اس کوڈ میں وفاقی حکومت کے ماتحت خود مختار اداروں میں تقرریوں کا طریقہ وضح کیا گیا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ 2015ءکے اشتہار پر جن حاضر سروس بیوروکریٹس نے چیئرمین پیمرا کے عہدے کیلئے درخواست دی ہے ان میں سے تین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی درخواستوں سے دستبردار ہوجائیں جس کے بعد یہ تین امیدوار دستبردار ہوگئے۔ 2015ءکے اشتہار میں سرکاری ملازمین کو اجازت دی گئی تھی کہ اگر وہ اہلیت کے معیار پر پورا اترتے ہیں تو وہ بھی درخواست دینے کے اہل ہیں تاہم شرط یہ ہے کہ عہدے پر منتخب ہونے کی صورت میں انہیں اپنی موجودہ ملازمت سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ نجی ٹیلی ویڑن چینل کا یہ نگران ادارہ پیمرا متنازع لیکن حکمرانوں کے من پسند افراد کے تقرر کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے غیر فعال اور متنازع رہا ہے۔ شتر بے مہار سمجھے جانے والے ٹیلی ویڑن چینلوں کی موثر نگرانی (ریگولیشن) کی بجائے پیمرا نے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کرکے بھی صرف حکمرانوں اور طاقتور گروپس کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ ماضی میں ادارے کی مایوس کن کارکردگی کے تناظر میں، یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ پیمرا کو حکومت کے اثر سے آزاد کیا جائے اور اس کیلئے بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران میرٹ اور تجربہ کی بجائے اپنے تعلقات استعمال کرکے بھرتی ہونے والے نا اہل اور کرپٹ افسران کا صفایا کیا جائے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آزاد چیئرمین پیمرا کا تقرر ضروری ہے تاکہ ادارہ بلاخوف و خطر آزادی کے ساتھ اپنا کام کر سکے۔ ایک سرکاری ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نمائندے کو بتایا کہ نیا اشتہار اعلیٰ عدلیہ کے احکامات سے متصادم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا ایک مخصوص شعبہ ہے اور محدود افراد کے پاس ہی پیمرا چیئرمین کے عہدے پر کام کرنے کیلئے متعلقہ تجربہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی معیار پوسٹ گریجوئٹ سے کم کرکے گریجویٹ اسلئے کیا گیا ہے کہ کئی لوگوں کے پاس ایم اے اور ایم ایس سی کی ڈگری ہے لیکن بہت کم لوگوں کے پاس متعلقہ تجربہ ہے۔ اب مزید لوگوں کو اس عہدے پر درخواست دینے کا موقع ملے گا اور سب سے زیادہ تجربہ کار شخص کو منتخب کرنا آسان ہوجائے گا۔ عمر کی بالائی حد میں کمی کرنے کے حوالے سے سرکاری ذریعے نے ایسا اسلئے کیا گیا ہے کہ نوجوانوں کو بھی اعلیٰ عہدے پر کام کرنے کا موقع مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی زیادہ عمر کے لوگوں کے تقرر پر اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔