ہفتہ‬‮ ، 07 جون‬‮ 2025 

حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہ ہو سکا، نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا

datetime 20  جنوری‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)پنجاب کے نگراں وزیراعلی کے تقررکیلئے حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی جس کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا اعلان کر دیا گیا۔نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کے نام پر اتفاق رائے کے لئے حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد کے چھ اراکین پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس

پنجاب اسمبلی کے کمیٹی روم میں ہوا۔ پارلیمانی کمیٹی میں حکمران اتحاد کی جانب سے میاں اسلم اقبال، راجہ بشارت، مخدوم ہاشم اور اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ملک محمد احمد خان، ملک ندیم کامران اور سید حسن مرتضیٰ نے نمائندگی کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے احمد نواز سکھیرا اور نوید اکرم چیمہ جبکہ اپوزیشن اتحاد کی طرف سے محسن رضا نقوی اور احد چیمہ کے نام پیش کئے گئے۔ حکمران اتحاد کی طرف سے ایک بار پھر سابق وفاقی وزیر نصیر خان کا نام بھی پیش کیا گیا اوراپوزیشن اتحاد کو بھی نیا نام دینے کی پیشکش کی گئی۔ دونوں جانب سے مذکورہ ناموں پر نگراں وزیر اعلیٰ کے لئے کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوسکا اور معاملے کو الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔بتایا گیا ہے کہ حکمران اتحاد کی پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کی جانب سے اپوزیشن کو نام تبدیل کرنے کی پیشکش بھی کی۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ بشارت نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ آپ نے جونام دئیے ہیں ان کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے خیالات کو بھی پیش نظر رکھیں،فیصلے وہ کریں جو عوام کو قابل قبول ہوں۔ ہماری اس رائے سے انہوں نے اتفاق نہیں کیا اور اپنے دونوں نام پربضد رہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دو ناموں کے ساتھ نصیر خان کا نام بھی دیا جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ ہم نے جن دو بیورو کریٹس کے نام دئیے ہیں ان کی کریڈیبلٹی اور غیر جانبداری پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

انہوں نے جو نام دئیے ہیں ہم نے انہیں مختصرا ًکہا ہے کہ جن کے پیچھے کریمینل ریکارڈ موجود ہو، پرچے ہوں،نیب میں کیسز موجود ہوں وہ کیسے نگراں وزیرا علیٰ آ سکتا ہے لیکن انہوں نے ہماری اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جانا ہے،ان کے امیدواروں کے بارے میں عوام کا جو ایک عمومی موقف ہے ہم اسے ساتھ لف کریں گے۔

ہمارے امیدواروں کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن اگر انہیں کوئی اعتراض ہوگا تو وہ لف کر دیں گے۔ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے توقع کرتا ہوں کہ وہ چاروں امیدوار وں کے کردار کو سامنے رکھیں تاکہ قوم کو پتہ چل سکے اس نے درست کیا ہے، قوم کو یہ بھی پتہ چلے کہ کون اس کے اہل تھاجو بہتر طور پر نگراں وزیر اعلیٰ کے طور پر صوبہ چلا سکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ناموں کو کسی بھی پیمانے پر دیکھیں تو یہ اپوزیشن کے ناموں سے بہتر ہیں،

ان کے دونوں نامزد لوگوں کی درگت بن رہی ہے۔ راجہ بشارت نے کہا کہ ہمارے پاس سارے فورم ہیں،اگر ایسے شخص کو سامنے لایا گیا جو متنازعہ ہو ا توعدلیہ سمیت ہر جگہ جائیں گے۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ ہم نے نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے احمد نواز سکھیرا اورنوید اکرم چیمہ کا نام رکھا اور اس کے ساتھ، نصیر احمد خان کا نام بھی پیش کیا۔ نوید اکرم چیمہ نے ان کے دور میں بطور چیف سیکرٹری کام کیا ہوا ہے، ہم چاہتے ہیں جس بندے کی کریڈیبلٹی ہو،ایڈ منسٹریشن کا تجربہ ہو،

جس نے انتخابات کا پراسس دیکھا ہو جو نوے دن صوبے کو چلا سکتے ہو، ہم نے جو نام دئیے ہیں ان سے بہتر کوئی امیدوار نہیں تھے۔ احمد نواز سکھیرا نے ہمارے دور میں وفاقی سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور آج بھی ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہم پسند اور نا پسند کی بجائے صوبے کو اس شخص کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جس کی کریڈیبلٹی، جس شعبے میں ہے اس کے علاوہ تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگ اس کی کریڈیبلٹی کی بات کریں تاکہ صوبے کو بہتر انداز میں چلایا جا سکے،

ہم نے جو نام دئیے ان کے حوالے سے تمام حساس اداروں کی مثبت رپورٹس ہیں، ان میں کسی کومنتخب کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا کہ نوے روز کے لئے جس نے نگراں وزیر اعلیٰ بننا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو اور الیکشن کرائے۔ یہ گیارہ کروڑ عوام کا صوبہ ہے جو نگراں وزیر اعلیٰ بنے اسے گورننس کا پتہ ہو، جس نے انتخابات ہوتے دیکھے ہوں اور کرائے بھی ہوں، کاش اپوزیشن والے ہماری اس بات کو وزن دیتے۔اپوزیشن اتحاد کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے ممبر ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ

جب ان کے دئیے ہونے نام عہدے کے لئے آئینی اور قانونی طور پر اہل نہیں ہیں تو ان پر کیسے اتفاق کرسکتے ہیں، انہوں نے جو ایک نام دیا ہے وہ حاضر سروس افسر ہیں اور ہماری رائے کے مطابق وہ اس عہدے پر نہیں آسکتے۔ ایک فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہے ہیں وہ سروس آف پاکستان میں دوبارہ جا نہیں سکتے، ہم نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ آئینی و قانونی ہیں۔۔انہوں نے کہا کہ یہ احد چیمہ پر اعتراض کر رہے ہیں مجھے بتائیں کہ احد چیمہ سے پروفیشنل افسر کوئی ہو سکتا ہے، ہم نے انہیں آٹھ سالہ کام کرتے دیکھا، وہ صوبے میں چھتیس پوسٹنگ پر رہا ہے،

آپ عمران خان کی نیب کی بات کر رہے ہیں جس نے بے گناہ کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا،نیب نے کیس کا ڈالا، وہ تین سال میں حبس بے جا میں رہا، میں نے آج تک اس کو جانبداری برتنے نہیں دیکھا، اگر یہ اس کی نااہلی ہے تو جس نیب کے ذریعے راجہ بشارت،میاں اسلم اقبال اورہاشم جواں بخت تین سال کا بینہ رہے وہ اس نیب کے باعث رہے، ان کی 31ممبران کی پارٹی تھی،نیب نے ہماری پارٹی کو ٹرم کیا،56کمپنیوں کے بے بنیاد کیسز بنائے گئے اور وزیر اعلیٰ کو اس کیس میں کھڑا کر دیا گیا، یہ احد چیمہ کا ڈس کریڈٹ نہیں بلکہ کریڈٹ ہے۔ احد چیمہ توانائی کے شعبے میں انقلاب نہیں لایا،

میٹرو کو کھڑا کر کے نہیں دکھایا، احد چیمہ کواورنج لائن کا ٹاسک دیا گیا جب وہ نہیں تھا تو کیا صورتحال تھی اور جب وہ تھا کیا کارکردگی تھی۔میرے خیال میں احد چیمہ کو انتخاب کرانے کی ذمہ داری دی جائے تو وہ بہترین طریقے سے ادا کریں گے۔ نیب کی وجہ سے آپ کے سیاہ ترین چار سال تھے، نیب کے معیشت کو یہاں پر پہنچایا، انہوں نے عمران خان کی ضد پوری کی۔انہوں نے کہا کہ محسن نقوی ایک کریڈیبل صحافی ہیں، ان کے حوالے سے حساس معاملے کو اٹھا کر بات کی، لیکن انہیں بتایا کیا وہ تو عدالت نے ختم کر دیا،آپ کی پسند اور نا پسند ہے، محسن نقوی نے میڈیا کے حوالے سے

دنیا کے معتبر ادارے کے ساتھ کام کیا ہے، انہوں نے انتخابات کو قریب سے دیکھا ہے۔ یہ پہلے نصیر خان کا نام لائے جب دہری شہریت کے معاملے کا احساس ہوا تو پیچھے کر دیا،ایک اور صاحب کا نام دیا تو انہوں نے انکار کر دیا، جو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہے ہوں وہ سروس آف پاکستان میں دوبارہ نہیں آ سکتا،یہاں آئین میں دو باتیں دی ہوئی ہیں، آئین کو شاید اندازہ نہیں تھاکہ معاملہ اس طرح بھی ہو جائے گا۔ جب آپ نے اہلیت لینی ہے اس کے لئے کون ہو سکتا ہے وہی ہو سکتا ہے جواہلیت پر پورا اترتا ہو۔ حاضر سروس سے وزیر اعلیٰ نہیں ہو سکتا لیکن آئین میں نگراں کا الگ سے ذکر نہیں ہے۔

ہمارا موقف تھا کہ آپ پسند اور نا پسند کی بات کر رہے ہیں، کیا احد چیمہ نے بھکی پاور کا منصوبہ بائیس مہینے میں کھڑا نہیں، حویلی بہادر شاہ کا منصوبہ ہے،تین تین ماہ میں میٹروز بن گئی ہیں۔انہوں نے معاملے کو عدالت میں لے جانے کے حوالے سے کہا کہ عدالت کا اس سے کوئی تعلق نہیں، آئین میں واضح لکھا ہے کہ۔آئین نے نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کے حوالے سے واضح کر دیا ہے۔دوسری طرف یہ ہے کہ جب حاضرسروس افسر کی بات ہے اس کی اپوائنمنٹ نہیں ہو سکتی ہے،جب کوئی بنیاد ہو تو ہم عدالت میں جا سکتے ہیں،یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہم تسلیم نہیں کریں گے۔

عمران خان کاکہنا یہ ہے کہ میں ہوں تو سب کچھ ہے، میں نہیں ہوں تو کچھ بھی نہیں۔ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو اپنی نامزدکردہ کمیٹی پراعتماد نہیں، ابھی معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں آیا نہیں آپ کہہ رہے ہیں ہم سپریم کورٹ جائیں گے، آپ نے اپیل کیسے درج کرنی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ نیب ان کے ساتھ کھڑی ہو، فوج ساتھ کھڑی ہو،ثاقب نثار جیسا شخص میسر ہو،جنرل فیض حمید میسر ہو تب ان کی سیاست ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھیں تو محسن نقوی غیر جانبداری کے حوالے سے بہترین چوائس ہیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس چار نام جائیں گے۔ سیاسی معاملات عدالت میں جائیں ہم اس کے حق میں نہیں ہیں، سیاست سیاسی ایوانوں تک رہنی چاہیے۔سید حسن مرتضی نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ کے لئے ہم متفق نہیں ہوس سکے اور کسی فیصلے کے بغیر سیشن ختم ہوا۔

میں دیکھ رہا ہوں جب ہاؤس چھوٹا ہوتا تھا تو لوگ بڑے ہوتے تھے لیکن جب ہاؤس بڑا ہوتا گیا ہے لوگ چھوٹے ہوتے جارہے ہیں،آج ہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اتفاق رائے کرنے کیلئے بیٹھنا تھا لیکن یہاں ممبران کو ڈکٹیشن دے کر بھیجا جاتا ہے کہ یہ چیز تو ماننی ہی نہیں، یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ ہم ایماندار ہیں ہمارا حق ہے ہماری بات تسلیم کریں اس لئے آپ سے اتفاق نہیں ہوسکتا، ہم بغیر اتفاق کے جارہے ہیں یہ کوئی اچھی یادیں نہیں ہے۔ ملک ندیم کامران نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی لیکن معاملہ کمیٹی میں آنے سے پہلے پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ میں جائیں گے، آپ اپنی بنائی ہوئی کمیٹی پر عدم اعتماد کر رہے ہیں، آپ نے وہ نام دئیے ہیں جو آئینی و قانونی طور پر اہل ہی نہیں ہیں تو ان کو کیسے زیر بحث لایا جا سکتا تھا، بیشک یہ بڑے اچھے لوگ ہیں لیکن ہر عہدے کے لئے آئینی و قانونی طور پر اہل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور یہ آئین کی ضرورت تھی، پارلیمانی کمیٹی کا اتفاق نہیں ہو سکا اور یہ یقینا اب الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ٹیرا کوٹا واریئرز


اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…