کراچی( مانیٹرنگ ڈیسک)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں، کاروباری برادری کے رہنماؤں اور غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ وسیع تر معاملات پر بات چیت کے دوران سیاسی رہنماؤں کی نجی بات چیت کی ویڈیوز اور آڈیوز جاری ہونے پر گہری تشویش اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کھیل نہیں کھیلنا چاہئے۔باجوہ نے عمران کی سینیٹ اور انتخابات میں مدد کی۔
نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور معاف کردیں، عمران کو پریشان ہونا چاہیے الیکشن اکتوبر میں ہونگے یا نہیں،حکومت اور اپوزیشن کو تجویز دی اپریل یا مئی میں کرا لیں۔نیب کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت تھی، ملک میں کسی کو بھی صرف الزام کی بنیاد پر جیل میں ڈالنا بہت ہی آسان،اداروں اور عدلیہ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، بھارت تقسیم کا شکار ہے ، پاکستانی قوم نے 30سال میں منقسم نہ ہونا سیکھ لیا، بھارت کو بلاول کی جانب سے اچھا جواب دیا گیا۔روزنامہ جنگ میں انیب اعظم کی خبر کے مطابق اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ انہوں نے ’’آڈیوز اور ویڈیوز کے کھیل‘‘ کے حوالے سے نئے آرمی چیف سے بات کی ہے،مجھے حیرت ہے کہ یہ سلسلہ کیوں جاری ہے، کسی بھی اخلاقی لحاظ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رہنا چاہئے۔
ایک اور بات جو صدر علوی نے کہی وہ یہ تھی کہ انہوں نے آرمی چیف کے ساتھ مسلح افواج کی ’’غیر جانبداریت‘‘ پر بھی بات کی۔ اس موقع پر انہوں نے حاضرین کو ایک مزاحیہ بات سنائی کہ 1990ء کی دہائی میں جب وہ جماعت اسلامی کا حصہ تھے اس وقت پارٹی کے امیدواروں کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے وقت اس سوال کا جواب دینا ہوتاتھا کہ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے واقعہ یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوار نے اقرار کیا کہ وہ شراب پیتا ہےجبکہ ایک اور امیدوار نے کہا کہ بس دو ہفتے قبل ہی پینا چھوڑ دی ہے۔ صدر علوی نے کہا ’میں نے یہ واقعہ اپنے اُن تمام وردی والے دوستوں کو سنایا ہے تاکہ انہیں یہ بتا سکوں کہ اگر آپ نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اسے آپ نے کل پرسوں ہی چھوڑا ہے، یہ سن کر سب ہنسنے لگے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سب باتیں آرمی چیف سے شیئر کی ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ اگر فوج نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اب وقت آچکا ہے کہ سیاست دان معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ انہوں نے کہا، ’’آپ (سیاست دان) ایسے حالات پیدا کر دیں کہ جن میں آپ کو اِن (فوج) کی طرف نہ بھاگنا پڑے۔‘‘
ڈاکٹر علوی کی رائے تھی کہ ملک کو مشکل وقت کا سامنا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ایک نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیں، آئیں ایسا ملک بنائیں جس کے ہم مستحق ہیں۔‘‘ انہوںنے افسوس کا اظہار کیا کہ اداروں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، حتیٰ کہ عدلیہ نے بھی نہیں۔
صدر نے کہا کہ عدالتوں نے آمر کو آئین میں تبدیلی کرنے کی اجازت دینے کیلئے فیصلے سنائے، انہوں نے ریکو ڈک کا حوالہ دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو 7؍ ارب ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہاکہ اگر آپ عدلیہ پر تنقید کریں گے تو اس سے پوری عدلیہ کا وقار کم ہوتا ہے اگر آپ فوج پر تنقید کرتے ہیں تو اس سے پورے ادارے کا وقار مجروح ہوتا ہے اور آپ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے وقار کو نقصان ہو۔
انہوں نے کہا کہ لیکن اس اصول کو اس قدر کھینچ کر ہر صورتحال پر لاگو کر دیا جاتا ہے کہ کوئی ان کیخلاف کچھ کہہ ہی نہیں پاتا، صدر نے یہ بھی کہا کہ ملک میں کسی کو بھی جیل میں ڈالنا بہت ہی آسان ہے، اگر کسی مخصوص شخص کو ہدف بنانا ہو تو اس کیخلاف کوئی بھی الزام عائد کرکے متعلقہ قانون نافذ کر دیں تاکہ اسےجیل میں ڈالنا یقینی ہو جائے۔
ملک میں جاری افراتفری کے حوالے سے صدر علوی نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن کے مخالفین کودوسرا این آر او چاہئے تھا لیکن جب ان کے مخالفین کہتے تھے کہ انہوں نے اپنے کیسز ختم کرنے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ تاہم، ڈاکٹر علوی کا کہنا تھا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے رہنماؤں کے مقدمات کے خاتمے کی کوششیں لازمی کی ہیں۔
آئندہ الیکشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں صدر علوی نے کہا کہ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کو زبانی تجویز دی ہے کہ بیچ کا معاملہ تلاش کر لیں اور الیکشن اپریل کے آخر یا پھر مئی میں کرا لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ الیکشن کی تاریخ طے نہیں ہے اور عمران کو پریشان ہونا چاہئے کہ الیکشن آئندہ سال اکتوبر میں ہوں گے یا نہیں۔
پاکستان میں بڑھتی تقسیم کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم نے افغانستان کی صورتحال سے سبق سیکھ لیا ہے کہ ہمیں منقسم نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں یہ سبق سیکھنے میں 30؍ سال لگے، فی الوقت بھارت کو تقسیم کا سامنا ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے بھارت کو دیے گئے جواب کے حوالے سے صدر علوی نے کہا کہ وزیر خارجہ نے درست کام کیا ہے، انہوں نے کہا کہ گلوبل آرڈر (دنیا کا نظام) ذاتی مفادات پرمبنی ہے، بلاول صاحب نے اچھا جواب دیا۔
جب صدر مملکت سے عمران خان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ پر عائد کیے گئے الزامات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگرچہ دوسرے فریق کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ وہ نیوٹرل ہو چکے ہیں اور وہ لوگوں پر دباؤ نہیں ڈال رہے تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کسی حد تک دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
ڈاکٹر علوی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں صحافیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر شیریں مزاری جیسے لوگوں کو اعتراف کرنا پڑا تھا کہ ان کے پاس اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت تھی۔ انہوں نے کہا کہ حالات کے مطابق سیاست دانوں کو بالغ النظری (میچورٹی) کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
صحافی مظہر عباس نے صدر سے سوال کیا کہ کیا عمران خان نے کسی موقع پر جنرل باجوہ کو برطرف کرنے کا سوچا تھا؟ اس پر صدر مملکت نے کہا کہ نہیں میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ تھا، یہ افواہ ہے۔ جب صدر علوی سے یہ پوچھا گیا کہ خان اور جنرل باجوہ کے درمیان تعلقات کب خراب ہوئے تو صدر مملکت نے کہا کہ میں بھی اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں، لیکن شاید گزشتہ سال اکتوبر میں اور اس کے بعد رواں سال اپریل مئی کے دوران ایسا ہوا تاہم، صدر نے کہا کہ جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے سینیٹ میں عمران خان کی مدد کی اور انہوں نے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کی مدد کی، مجھے اِس کا علم ہے۔
صدر عارف علوی نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی انتشار کی سیاست کے حوالے سے پوچھے گئے سخت سوالوں کا باہمت اور پرسکون انداز سے جواب دیا۔ کاروباری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ملک کو ممکنہ ڈیفالٹ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
صدر مملکت نے اتفاق کیا کہ معیشت میں اصلاحات اور اس کی بحالی بنیادی مقصد ہونا چاہئے۔ اور اس حد اور اس مقصد کیلئے وہ معاف کرکے بھول جاؤ کی پالیسی اختیار کرنے کیلئے تیار ہیں تاکہ ملک کے فائدے کیلئے نئی شروعات ہو سکے۔