کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) اگرچہ تقریباً تمام وکلاء اور قانون سازی کے معاملات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے کسی صوبے کا وزیراعلیٰ گورنر سے سفارش کر سکتا ہے لیکن پنجاب کی بات کی جائے تو یہ معاملہ عدالتوں تک جا سکتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں زیب النساء برکی کی خبر کے مطابق صحافی اور وکیل منیب فاروق کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل112؍ واضح ہے۔
کوئی وزیراعلیٰ، جس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہو، گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش نہیں کر سکتا۔ پنجاب اسمبلی کے معاملے میں پرویز الٰہی کیخلاف کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اور نہ ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے، سیشن کافی وقت سے جاری ہے۔ اور چونکہ نہ قرارداد پیش ہوئی ہے اور نہ کوئی نوٹس جاری ہوا ہے تو وزیراعلیٰ کے پاس تکنیکی لحاظ سے اختیار ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کر دیں لیکن یہ معاملہ بالآخر عدالتوں تک جا پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسمبلی کا سیشن نیا ہو، نہ کہ پہلے سے جاری۔ اس سے یہ ہوگا کہ اپوزیشن یہ موقف اختیار کرے گی کہ ہماری قرارداد تیار تھی لیکن چونکہ سیشن ملتوی نہیں کیا گیا اور اس خاص مقصد کیلئے نیا سیشن طلب نہیں کیا گیا اس لئے ہم عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کر سکے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ لہٰذا تکنیکی طور پر تو اسمبلی تحلیل کی جا سکتی ہے لیکن مسئلہ ہوگا۔ اسلئے یہ معاملہ عدالتوں تک جائے گا۔ سپریم کورٹ کے وکیل سلمان راجہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہوگی جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت بھی تحلیل ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد زیر التوا ہے تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔ ایک ماہ میں کتنی مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے کے سوال کے جواب میں سلمان راجہ نے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ماضی میں چھ ماہ میں وزیراعلیٰ کیخلاف دوسری مرتبہ عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلوں کے بعد، پارٹی کے ارکان کو پارٹی کے فیصلوں پر عمل کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی صورت یہ وزیراعلیٰ کا اختیار ہے کہ وہ گورنر سے اسمبلی تحلیل کرنے کو کہیں، اور ایسی صورت میں گورنر کو یہ اقدام کرنا ہی ہوگا۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے اتفاق کیا ہے کہ آئین میں واضح ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک زیر التوا ہو تو وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین کے تحت 90؍ دن میں اسمبلی الیکشن کرانا ہوگا۔ ہر اسمبلی کا الیکشن علیحدہ ہوگا اور ایسی کوئی آئینی شق نہیں کہ جس کے تحت تمام اسمبلیوں کا الیکشن بیک وقت کرایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی ارکان پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیں گے تو تکنیکی طور پر اسمبلیاں اپنا کام بدستور جاری رکھیں گی اور نیا وزیراعلیٰ منتخب کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ کے پی میں اپوزیشن کے پاس صرف 33؍ فیصد نشتیں ہیں اس لئے ایسا کرنا عجیب لگے گا، لہٰذا یہاں گورنر راج کا امکان ہے۔ پنجاب اسمبلی کی بات کی جائے تو نون لیگ اور اتحادیوں کے پاس پچاس فیصد سے کم نشستیں ہیں تو پی ٹی آئی ارکان کے استعفے کی صورت میں یہاں نسبتاً حکومت مینیج کرنا آسان ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چونکہ دونوں صوبوں میں اسپیکرز پی ٹی آئی کے ہیں تو پارٹی ارکان کے استعفوں کی صورت میں یہ اسپیکرز استعفوں کے معاملے کو طول نہیں دیں گے جیسا کہ قومی اسمبلی کے معاملے میں ہوا تھا۔ اگر استعفے منظور ہوئے اور الیکشن کمیشن بھیج دیے گئے تو ضمنی الیکشن ناگزیر ہو جائیں گے اور اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی الیکشن کرانا بہت مہنگا ثابت ہوگا اور سیاسی لحاظ سے بھی صورتحال باعثِ ہزیمت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ یہ اب بھی ممکن ہے اور یہ صرف نفسیاتی جنگ ہے، دیکھنا پڑے گا کہ پہلے کون شکست تسلیم کرتا ہے۔ وکیل عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کی جانب سے گورنر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہنے سے قبل نون لیگ والوں کو وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ لیکن پرویز الٰہی اس صورتحال سے خود کو بچا لیں گے اور عمران خان کی خواہش پر عمل نہیں کریں گے۔
ایڈووکیٹ ابوذر سلمان خان نیازی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 112؍ کے تحت وزیراعلیٰ کی جانب سے ایڈوائس پیش کیے جانے کے 48؍ گھنٹوں بعد اسمبلی از خود تحلیل ہو جائے گی، تاہم اگر گورنر ایڈوائس پر عمل کرے تو اسمبلی اسے وقت سے پہلے بھی تحلیل ہو سکتی ہے۔ ان کی رائے بھی یہی تھی کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوگئی تو وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل نہیں کر پائیں گے۔