پیرس(نیوز ڈیسک)فرانس میں ناراض کسانوں نے اپنے مویشیوں کو بھیڑیوں کے حملوں سے بچانے کے لیے مزید کوششوں کا مطالبہ کرتے ہوئے قومی پارک کے سربراہان کو اغوا کر لیا۔ویب سائٹ ’دی لوکل‘ کے مطابق وینوئز نیشنل پارک کے صدر گایے چیمیریوئل کو ڈائریکٹر ایمونیوئل کے ہمراہ پارک کے نئے تحریری ضابطے تیار کرنے کے سلسلے میں بلائے گئے اجلاس کے دوران ’حراست‘ میں لیا گیا۔اس کارروائی میں 50 کے قریب کسانوں نے شرکت کی جس کے دوران کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا۔اس سال اب تک بھیڑیوں نے مویشیوں پر لگ بھگ ایک سو تیس حملے کیے ہیں جس پر کسان ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مویشیوں کو حملوں سے بچانے کے لیے مناسب اور ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔علاقائی اخبار ’ڈافین لبری‘ نے اس واقعہ پر لائیو بلاگ شائع کیا جس میں مقامی سیاست دانوں نے کسانوں کے ساتھ ہمدردری کا اظہار کیا لیکن ان پر زور دیا کہ وہ معاملے کو ختم کردیں۔قومی اسمبلی کے رکن فلیپی منیئر نے کہا کہ بھیڑیوں کے حملوں کو روکنے کے لیے حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں وہ ’ناکافی‘ ہیں اور یہ کہ ’ایک کنٹرولڈ مینجمنٹ کے تحت ریاست بھیڑیوں کے شکار کی اجازت دے جیسا کہ وہ پہلے ہی بڑے کھیلوں کے انعقاد کے لیے کرتی ہے۔‘اس مطالبے کے بعد کہ موجودہ سال کے آخر تک پانچ بھیڑیوں کو ضائع کر دیا جائے گا، پارک کے صدر مسٹرچیمیریوئل کو ’رہائی‘ ملی اور انھوں نے اخبار کو بتایا کہ وہ اپنے اسیر کرنے والوں کی ’تکلیف کو سمجھ گئے ہیں۔‘’باس کو قید کرنا‘ صرف فرانس ہی میں نہیں ہوتا لیکن کئی برس قبل اس طرح کے بہت سے واقعات ہونے کے بعد اس عمل کو شہرت اسی ملک سے ملی ہے۔اگرچہ اس عمل کی اخلاقی حیثیت پر بحث ہوتی رہتی ہے تاہم ’بلومبرگ ‘ میں ایک تجزیے کے مطابق کارکنوں کے اپنے مالکان سے تنازعات میں یہ ایک موثر ترکیب ہے جس سے کارکنوں کو مقدمات کا سامنا بھی نہیں ہوتا اور انھیں اپنے آجروں سے بہت سی رعایات بھی مل جاتی ہیں۔