اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایف آئی اے کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس میں اب تک کی تحقیقات کے نتیجے میں طارق شفیع نامی کاروباری شخصیت کا نام پاکستان تحریک انصاف کے ’’منشی‘‘ (نقد رقم سنبھالنے والا) کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وہ پی ٹی آئی کے سینٹرل فنانس بورڈ کے رکن ہیں، پارٹی کے مرکزی بینک اکائونٹ پر دستخط کرتے ہیں اور شوکت خانم کینسر اسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی ہیں۔
منی لانڈرنگ کے حوالے سے جن دیگر کاروباری افراد کی اسکروٹنی کی جا رہی ہے وہ سب طارق شفیع سے وابستہ ہیں۔ ان میں حامد زمان فی الحال ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی خبر کے مطابق شفیع کیخلاف لاہور اور کراچی میں ایک ایک پرچہ کٹا ہوا ہے۔ ایک اور کاروباری شخص بھی ہے لیکن اس کا شفیع سے تعلق نہیں لیکن اس نے بطور چینل کا کام کیا جو امریکا سے فنڈز لا کر اپنے اکائونٹ میں جمع کرا دیتا اور پھر پی ٹی آئی کے اکائونٹ میں منتقل کر دیتا۔ یہ وہ افراد ہیں جو پی ٹی آئی کے عہدیداروں کے علاوہ ہیں جن میں عمران خان بھی شامل ہیں جن کیخلاف یہ الزام ہے کہ وہ اُن اکائونٹس کو چلانے والوں میں شامل ہیں جو پارٹی نے الیکشن کمیشن کے روبرو افشاء نہیں کیے تھے، اور ان اکائونٹس میں بھاری رقوم نکلوائیں۔ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے ایف آئی اے کو بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کی فنڈنگ کے حوالے سے 52؍ ایسی ٹرانزیکشنز ہیں جو 2013ء کے الیکشن سے تھوڑا پہلے کی گئیں، ان ٹرانزیکشنز کے حوالے سے مشکوک رپورٹس (سسپیشس ٹرانزیکشن رپورٹس) سامنے آئیں لیکن بینکوں نے انہیں نظر انداز کیا۔
جہاں تک طارق شفیع کا تعلق ہے تو انہوں نے ’’دی انصاف ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک جعلی ادارہ قائم کیا تاکہ ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی سے فنڈز لیے جا سکیں۔ اس کمپنی کے ذریعے انہیں ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے 6؍ لاکھ 25؍ ہزار ڈالرز ملے۔ یہ کیمن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ عارف نقوی کی ایک آف شور کمپنی ہے۔ جس وقت طارق شفیع ٹرسٹ کے چیئرمین تھے۔
اس وقت عاشق حسین قریشی (مرحوم) ڈپٹی چیئرمین، حامد زمان سیکریٹری جنرل جبکہ منظور احمد چوہدری اور مبشر احمد ٹرسٹی تھے۔ منی لانڈرنگ کیلئے اختیار کیے جانے والے ایک مخصوص انداز کے ساتھ فنڈز پہلے ٹرسٹ کے ڈالر اکائونٹ میں جمع ہوتے تھے اور اس کے بعد انہیں مقامی کرنسی اکائونٹ میں جمع کرا دیا جاتا تھا اور پھر دو ایڈور ٹائزنگ ایجنسیوں کے اکائونٹس میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔
یہ دونوں کمپنیاں 2013ء کے الیکشن کے دنوں میں پی ٹی آئی کی تھیں۔ اول الذکر کو 36؍ ملین جبکہ آخر الذکر کو 25؍ ملین روپے موصول ہوئے۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں سے ایف آئی اے کو معلوم ہوا ہے کہ ان کی دولت، جو اصل میں پی ٹی آئی کی تھی، کیسے تیسرے ذریعے سے آتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اسد عمر کے اسٹاف سے پوچھا ہے، اس کے بعد پارٹی کی مہم چلانے والے سربراہ سے بھی پوچھا ہے اور اس کے بعد اسد عمر کی جانب سے تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ ٹرسٹ پی ٹی آئی کا تھا۔
اس حوالے سے شواہد اسد عمر کیلئے پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ رقم ٹرسٹ کے اکائونٹ میں جمع کرائے گے اُن 5؍ لاکھ 75؍ ہزار ڈالرز کے علاوہ ہیں جو براہِ راست ووٹن کرکٹ نے شفیع کے اکائونٹ میں جمع کرائے اور پھر انہوں نے پی ٹی آئی کے اکائونٹ میں ڈال دیے۔ شفیع نے ایف آئی اے لاہور میں اپنی پیشی کے دوران دعویٰ کیا کہ وہ نقوی کو نہیں جانتے تھے۔
ووٹن کرکٹ کی جانب سے ان کے نجی اور ٹرسٹ کے اکائونٹ میں پیسے جمع کرانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ انہیں یہ بات یاد نہیں کیونکہ یہ 9؍ سال پرانی بات ہے۔ یہ بات یاد کرنے کیلئے انہوں نے وقت مانگ لیا۔ ایف آئی اے نے کراچی میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اس وقت وہ سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت پر ہیں۔
مذکورہ فنڈز کا انکشاف ہونے کے بعد نقوی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے حلف نامے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں جس کے مطابق انہوں نے 2.1 ملین ڈالرز پی ٹی آئی کے اکائونٹ میں منتقل کیے جو انہوں نے متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں سے جمع کیے تھے۔
انہوں نے شفیع کو منتقل کیے گئے 1.2؍ ملین ڈالرز کا ذکر نہیں کیا۔ نقوی کی جانب سے یہ کہنا کہ فنڈز متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں سے جمع کیے گئے تھے کے بیان پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ عمران خان کہتے ہیں کہ یہ رقم برطانیہ میں کرکٹ میچز کے ذریعے جمع کی گئی تھی۔
متحدہ عرب امارات کی شخصیت کی جانب سے دیا جانے والا عطیہ بھی اسی رقم کا حصہ ہے۔ ایف آئی اے نے میوچوئل لیگل اسسٹنس معاہدے کے تحت یو اے ای حکام سے ووٹن کرکٹ کے اکائونٹ کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ عارف نقوی کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں لکھا ہے کہ میں واضح انداز سے یہ بیان کرتا ہوں کہ میں نے پی ٹی آئی کیلئے ’’ناٹ پروہبٹڈ فنڈز‘‘ ڈونیشن اور فنڈ ریزنگ کی مد میں تارکین وطن پاکستانیوں اور پاکستانی شہریوں (بیرون ملک میں عارضی یا مستقل طور پر مقیم) سے حاصل / جمع کیے ہیں۔
ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کے حوالے سے جس ٹرانزیکشن کو نمایاں کیا جا رہا ہے اور سوالات پوچھے جا رہے ہیں ان کے حوالے سے میری بہترین معلومات کے مطابق میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے کسی شخص یا غیر پاکستانی شہری یا کمپنی (پبلک یا پرائیوٹ) کسی اور ایسے ممنوعہ ذریعے سے پیسے جمع نہیں کیے جنہیں پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے رول (3)6 کے تحت ممنوعہ قرار دیا گیا ہو۔
طارق شفیع کراچی میں درج ایک اور مقدمے میں بھی زیر تفتیش ہیں جس میں انہیں نقوی کے ساتھ شریک ملزم بتایا گیا ہے۔ مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ نے اس سال فروری میں اس وقت ایک مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ (STR) تیار کی تھی جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی۔ تفصیلات کے مطابق، انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں 1.84ملین ڈالر وصول کیے اور یہ اکائونٹ پہلے ووٹن کرکٹ پی ٹی آئی کو رقوم کی منتقلی کیلئے استعمال کرتا تھا۔
یہ رقم (1.84لین ڈالرز) آف شور کمپنیوں یعنی ملٹ بلیو لمیٹڈ، ٹرائیڈنٹ ٹرسٹ اور ہاربر سروسز لمیٹڈ کی طرف سے جمع کرائی گئی۔ انہوں نے یہ رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اجازت کے بغیر حاصل کی۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ پیسہ بھی پی ٹی آئی کیلئے تھا یا نہیں۔
اپنے حلف نامے میں عارف نقوی کا کہنا تھا کہ ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کے کھاتوں میں جمع ہونے والی تمام رقوم پی ٹی آئی کے آفیشل اکائونٹ میں منتقل کی گئیں اور مجھے یہ بتایا گیا ہے اور میں یہ بات مانتا ہوں کہ ہم نے درست طریقہ کار اختیار کیا اور اس کی نشاندہی پی ٹی آٗی کے آڈٹ شدہ اکائونٹس سے بھی ہوتی جو الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے ہیں۔ نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ووٹن کرکٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو پاکستان بھیجی جانے والی تمام رقوم بینکوں کے ذریعے بھیجی گئیں۔
کوئی دوسرا طریقہ یا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک اور بزنس مین ڈاکٹر سعد خالد نیاز کو بھی 2013ء کے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کے اکائونٹ میں 8؍ ملین روپے جمع کرانے کے معاملے میں ایف آئی اے نے طلب کر لیا ہے۔ اس رقم کے تانے بانے پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر ارجمند ہاشمی سے جا ملتے ہیں جو امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک کائونٹی کے تین مرتبہ میئر رہ چکے ہیں۔ 2014
ء میں ارجمند ہاشمی کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو دل کا دورہ ہو سکتا ہے۔ پرویز مشرف نے انہیں 2005ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ سعد خالد نیاز فنڈز ٹرانسفر کے معاملے میں پی ٹی آئی اور ارجمند ہاشمی کے درمیان ڈاک خانہ تھے۔
سعد خالد ایک چیریٹی کمپنی دی ہیلتھ فائونڈیشن کے ٹرسٹی / ڈائریکٹر ہیں اور ساتھ ہی وہ ایک کمپنی کے ڈائریکٹر بھی ہیں اور اسی کمپنی کے دیگر ڈائریکٹرز میں اسد عمر کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔ طارق شفیع کی طرح سعد خالد نیاز کو بھی ان کے ڈالر اکائونٹ میں فنڈز ارجمند ہاشمی کے ذریعے ملے جو انہوں نے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرکے پی ٹی آئی اکائونٹ میں جمع کرا دیے۔
ایف آئی اے کی جانب سے طلب کیے جانے پر انہوں نے جواب دینے کیلئے تین ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ نامنظور ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ ہے، حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے فنڈز جمع کرنے پر اس ویب سائٹ کیخلاف بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ویب سائٹ کے منتظمین میسرز ٹائلز مائونٹین نامی کمپنی کے ملازمین ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی چوہدری محمد اقبال اس ٹائل بزنس کے مالک ہیں۔ اس معاملے مین ایف آئی اے کی نظر سینیٹر سیف اللہ نیازی پر بھی ہے کیونکہ اس ویب سائٹ کے ذریعے فنڈز جمع کرنے والوں میں ان کا نام بھی شامل ہے۔