اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس کو بڑی کوتاہی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں جو تہہ تک پہنچے گی،اس طرح کی سیکیورٹی کی کوتاہیاں ہوں تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟پاکستان کے وزیراعظم سے وزیراعظم ہاؤس میں ملنے کون آئیگا اور بڑا سوچے گا کہ کوئی ایسی سنجیدہ بات کروں یا نہیں ؟،
آڈیو لیکس میں کوئی غلط بات نہیں، مریم نواز نے اپنے داماد کیلئے کوئی رعایت یا سفارش نہیں مانگی،اس طرح رائی کا پہاڑ بنادینا مناسب نہیں،چینی اور گندم اسکینڈل کی آڈیو بھی آنی چاہیے،مفتاح اسماعیل نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا،ہم نہ آتے تو عمران خان ملک کو دیوالیہ کرتا، اسحاق ڈار کا معیشت کے حوالے سے بہت اچھا تجربہ ہے،امید ہے عرق ریزی سے کام کریں گے اور حالات مزید بہتر کرنے میں ان کا پورا کردار ہوگا،ڈالر 100 روپے پر آجائے تو ہمارے وارے نیارے ہوجائیں گے،انتخابات وقت پر ہوں گے،پی ٹی آئی کو اسمبلی میں واپس آنا ہے تو آجائے،ڈاکٹر کی اجازت کے بعد نواز شریف بھی پاکستان واپس آجائیں گے،ایوان صدر میں میٹنگ بارے علم نہیں،صدر پیوٹن سے مسکراہٹوں کا تبادلہ خود سائفر کی تحقیقات ہے،عمران خان نے ساری ریاستی مشینری کا بے پناہ استعمال کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز شریف، پیپلزپارٹی اور مجھ سمیت پوری اپوزیشن کے خلاف کتنے جھوٹے مقدمات بنائے،5 قیراط ہیروں کی بات کی گئی، ملکی اثاثے بے دردی سے بیچے گئے، توشہ خانہ کو دیکھ لیں، اس کا ذکر نہیں ہوتا،عمران خان نے گھڑیاں بیچ دیں، پیسے جیب میں ڈالے ،توشہ کی رقم دیدی، قانون کیساتھ اس سے بڑا کھلواڑ کوئی ہوسکتا ہے،عمران خان نے فوج اور اداروں کو تقسیم کرنے کی کسر نہیں چھوڑی،قانونی گنجائش ہوئی تو جی سی معاملے پر کارروائی کریں گے،
وزیراعلیٰ سے آج تک سرکاری بیرونی دوروں کے خرچے خود ادا کرتا ہوں،عالمی رہنماؤں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا،اقوام متحدہ میں کشمیر، فلسطین اور اسلاموفوبیا پر پاکستان کا مؤقف دہرایا،عمران دور میں دوست اور برادر ممالک کو ناراض کیا گیا، میں عینی شاہد ہوں، دوست ممالک نے جو الفاظ کہے نہیں دہرا سکتا ،مخلوط حکومت کی وجہ سے پاکستان عالمی تنہائی سے باہر نکل آیا۔
منگل کو یہاں وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزاء مریم اور نگزیب ،شیری رحمن ،احسن اقبال و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دور ان آڈیو لیکس میں مریم نواز کی جانب سے سفارش سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے کسی سفارش کا نہیں کہا، راحیل کی نہ تو سفارش کی اور نہ فیور مانگی تاہم ڈاکٹر توقیر نے بات کی کہ ان کی شوگر مل کی آدھی مشینری بھارت سے درآمد ہوئی ہے
اور اسی حوالے سے بات کی تھی۔وزیر اعظم نے کہا کہ ڈاکٹر توقیر نے کہا کہ چونکہ اس پر پابندی لگ چکی ہے، تو یہ اقتصادی رابط کمیٹی اور پھر کابینہ میں جائیگی تو پھر یہ معاملہ بھارت کے ساتھ تھا اور 5 اگست کو بھارت نے جوکیا اس کے نتیجے میں ظلم ہوا، جس کی وجہ سے یہ عمل نہیں کیا۔شہباز شریف نے کہا کہ اس کے مقابلے میں ہیرے اور جواہرات کی پیش کش ہوتی تھیں، آڈیو میں اس کی بات سنیں،
پھر مراعات کے طور پر زمینیں دی گئیں، ہیرے اور جواہرات کی بات نہیں کرتے لیکن اس کو لے کر بیٹھے ہیں جس میں کوئی سفارش نہیں لی گئی۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ساری ریاستی مشینری کا بے پناہ استعمال کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز شریف، پیپلزپارٹی اور مجھ سمیت پوری اپوزیشن کے خلاف کتنے جھوٹے مقدمات بنائے۔انہوںنے کہاکہ عمران خان نے بشیر میمن کو
اپنے دفتر میں بلایا اور کہا کہ ان کے خلاف مقدمے کرو تو اس نے جعلی مقدمات بنانے سے انکار کیا، اس کا کیا ہوا، اتنا شور میڈیا پر اٹھایا گیا ہے، اس پر انصاف کریں، غلطی کی تو پوری قوم سے ہاتھ جوڑ کر معاف کروں گا۔انہوں نے کہا کہ جہاں 5 قیراط ہیروں کی بات کی گئی، ملکی اثاثے بے دردی سے بیچے گئے، توشہ خانہ کو دیکھ لیں، اس کا ذکر نہیں ہوتا لیکن یہ تو ایک آڈیو ہے کیا اس میں کسی لین دین کی بات ہو رہی ہے
یا دور دور تک کوئی شائبہ بھی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ یہاں اسلام آباد میں گھڑیاں بیچ دی گئیں، قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں، گھڑی بیچ کر پیسے جیب میں ڈال دیے اور بعد میں توشہ خانہ کی رقم دی گئی کیا ایسا ہوتا ہے، پہلے رقم جمع ہوتی ہے پھر لیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ عمران خان نے گھڑیاں بیچ دیں، پیسے جیب میں ڈالے اور توشہ کی رقم دے دی، قانون کے ساتھ اس سے بڑا کھلواڑ کوئی ہوسکتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ شنگھائی کانفرنس اور اقوام متحدہ میں ہونے والی ملاقاتوں اور سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سمر قند میں شنگھائی کانفرنس میں حوصلہ افزا ملاقاتیں ہوئیں جہاں ازبکستان کے صدر بہترین میزبانی کی خدمات انجام دے رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا، چین اور روس کے صدور سے ملاقات ہوئی اور کانفرنس میں ہم نے پاکستان کے
اندر سیلاب کے بارے میں بتایا کہ اس میں ہمارا کردار قطعاً نہیں ہے اور ہمیں ناکردہ گناہ کی سزا نہ جانے کیسے ملی۔انہوںنے کہاک ہکاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر یہ آفت آن پڑی اور وہ تباہی مچائی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور یہی بات کانفرنس میں کی اور دنیا کو آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ وہاں موجود دنیا کی قیادت اور زعما نے خود ذکر کیا
اور پاکستان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتیہوئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرادی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں دنیا کے زعما سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں اور اسی پہلو کو اجاگر اور بتایا کہ سیلاب سے 1600 سے زائد لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، فصلیں اور لاکھوں گھر تباہ ہوگئے اور لوگوں کی کمائی چلی گئی۔سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصانات ہوئے ہیں، جس کا میں نے ہر اجلاس میں چاہے
وہ ایران کے صدر یا فرانس کے صدر، بیلجیم اور جاپان کے وزرائے اعظم ہوں اور امریکی صدر جوبائیڈن سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کے ساتھ اظہار ہمدردی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نہ صرف پاکستان کے سیلاب کے حوالے سے بات کی بلکہ کشمیر، فلسطین اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے پاکستان کا بھرپور مؤقف پیش کیا۔انہوںنے کہاکہ بھارت کے
اندر مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہے، اس کی بھرپور مذمت کی اور بتایا وہاں مسلمانوں کی زندگی تنگ ہے، کشمیر کے اندر ظلم وستم جاری ہے، 5 اگست 2019 کو خصوصی آرٹیکل ختم کردیا ہے اور اسی طرح ہم نے پاکستان کا مؤقف بھرپور پیش کیا، جس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو میرے ساتھ تھے، ان کے علاوہ خواجہ آصف، شیری رحمٰن اور مریم اورنگزیب کی کاوشیں تھیں اور یہ ٹیم ورک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تنہائی کے دور سے نکلا ہے، اس تنہائی سے پاکستان کو نقصان پہنچا تھا، گزشتہ حکومت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حلیہ بگاڑا اور بیڑا غرق کردیا گیا۔پچھلی حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوست اور برادر ممالک کو ناراض کیا گیا، میں اس کا عینی شاہد ہوں، دوست ممالک نے جو الفاظ کہے وہ نہیں دہرا سکتا تاہم انہوں نے پچھلی حکومت اور اس کے سربراہ کے بارے جو بتایا وہ الفاظ میں یہاں بتاؤں تو سب کو پسینہ آئے گا کہ وہ کیا رائے رکھتے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کس طرح تحکمانہ انداز میں، کسی کی پرواہ نہ کرنے، عزت اور احترام سے بات نہ کرنا اور خود کو آئن اسٹائن سمجھنا، اس طرح کی صورت نے پاکستان کو نقصان پہنچایا لیکن موجودہ حکومت نے دن رات کوشش سے ہم دوبارہ تنہائی سے نکل کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ممالک سے رابطے ہیں، عزت اور احترام سے بات ہوتی ہے۔وزیراعظم نے گزشتہ حکومت پر تنقید جاری رکھتے ہوئے کہا کہ
ملک کی معیشت کا جنازہ نکال دیا اور پھر غیرممالک کے سربراہوں سے غیرمہذب طریقے سے ملنا اور بھاشن دینے کے کچھ نہیں کیا۔آڈیولیکس کے حوالے سے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے اور بہت بڑی کوتاہی ہے، بات صرف میری نہیں ہے بلکہ کوئی بھی وزیراعظم جس کو عوام نے منتخب کیا ہو اور وہاں اس طرح کی سیکیورٹی کی کوتاہیاں ہوں تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان کے وزیراعظم سے وزیراعظم ہاؤس میں ملنے کون آئے گا اور بڑا سوچے گا کہ کوئی ایسی سنجیدہ بات کروں یا نہیں کیونکہ 100 باتیں ہوتی ہیں، یہ وزیراعظم ہاؤس کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس پر نوٹس لے رہا ہوں، اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جائے گی جو اس سارے معاملے کی تحقیق کرکے تہہ تک پہنچے گی۔امریکا میں ہوٹل کے اخراجات کے حوالے سے
انہوں نے کہا کہ میں تین مرتبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب ہوا اور اب مخلوط حکومت کا سربراہ ہوں تو وزیراعلیٰ سے لے کر آج تک میں نے جتنے بھی سرکاری بیرونی دورے کیے اس کے اخراجات ہمیشہ اپنے جیب سے ادا کیے اور اکثر دیگر ساتھی بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، یہ نئی بات یا احسان نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ جب آپ کے وسائل ہیں اور ملک کے وزیراعظم ہیں تو پھر قوم کے پیسے
کیوں خرچ کریں اور 25 برسوں میں یہ میری پریکٹس ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ڈونرز کانفرنس کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں زعما نے ڈونر کانفرنس اور تعاون کی بات کی ہے اور ہم اس پر فعال کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کون سا مناسب وقت ہوگا، اس کی تیاری پوری ہونی چاہیے، اس کے لیے پوری تیاری کی جارہی ہے، ہمارے وزیرخارجہ اور احسن اقبال پوری تیاری کر رہے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ اس میں تاخیر نہیں کریں گے اور پوری تیاری سے اس کام کو کریں گے، اس کے لیے فرانس کے صدر نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ وہ آڈیوز آنی چاہیے، جب انہوں نے چینی برآمد کی اور اس بنیاد پر درآمد کی کہ چینی کا اسٹاک ہے اور پاکستان کو زرمبادلہ ملے گا، 2018 میں چینی 52 روپے کلو تھی لیکن چینی برآمد ہوتے ہی پر لگ گئے اور چینی 100 روپے سے اوپر چلی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران سبسڈی بھی دی گئی اور پھر ڈالر بھی روپے کے مقابلے میں اوپر جارہا تھا، اس طرح یہ پاکستان کا اربوں روپے کا اسکینڈل ہے۔انہوںنے کہاکہ عمران خان رات کو 12 بجے پریس کانفرنس میں کہتے تھے میں چھوڑوں گا نہیں اور کمیشن بنادیا ہے تو وہ کمیشن کہا ہے، اس کی رپورٹ کہا ہے اور کس کو سزا دی گئی۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح گندم برآمد کی گئی اور بعد میں ناقص گندم منگائی گئی
اور پاکستان کے اربوں ڈالر برباد کردئیے گئے، کسی نے اس کا نوٹس لیا اور پوچھا، نیب اس وقت کہاں تھا لیکن خاتون کو وزیراعظم ہاؤس میں حبس بے جا میں رکھا۔انہوںنے کہاکہ چیئرمین نیب کو بلیک میل کیا گیا، تمام کیسز بند کردیے گئے جبکہ اپوزیشن کو جیل بھیج دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آڈیو میں قانون اور پالیسی کا مکمل احترام کیا جاتا ہے، مریم نواز کی کوئی سفارش نہیں کی لیکن اس طرح رائی کا پہاڑ بنادینا
مناسب نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس کے علاوہ کس طریقے سے پشاور میٹرو کا اسٹے لیا گیا، ہمیں تو کسی نے اسٹے نہیں دیا تھا، عدلیہ کا مذاق اڑایا اور ڈھٹائی سے مزاحمت کی اور بلین ٹری کہاں گیا، پشاور کے میٹرو کہاں گیا، اربوں روپے کھا گئے۔انہوں نے کہا کہ ہم دن رات کام پر لگے ہوئے تھے لیکن یہ ریلیاں اور تقریریں کہ پاکستان خدانخواستہ سری لنکا بن جائے گا
اور دیوالیہ نکل جائے گا تو اصل میں عمران خان یہی چاہتا تھا۔انہوںنے کہاکہ میرے خلاف برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) میں گئے جہاں سے 2 سال بعد کلین چیٹ مل گئی لیکن فنانشل ٹائمز میں شوکت خانم ہسپتال کا خیرات کا پیسہ سیاست میں استعمال کیا، اگر غلط تھا تو جاتے میری طرح کیس کرتا۔انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت ہے تو روس کے صدر پیوٹن اس طرح پرتپاک طریقے سے کیوں ملتے
اور انہوں نے کہا ہم آپ کے ساتھ گندم دینے اور تجارت کرنے کے لیے تیار ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان تنقید کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اس شخص کا انتہائی افسوس ناک کردار ہے، دن رات جھوٹ بولنا اور کردار کشی کرنا حتیٰ کی افواج اور اداروں کو بھی تقسیم کرنے کی کسر نہیں چھوڑی اور قوم میں زہر گھول دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ مجھے خدشہ ہے یہ شخص کہیں ملک کو تباہی کے دہانے
پر نہ لے کر جائے، مریم اورنگزیب کے ساتھ لندن میں ہوا کیا یہی طریقہ ہے، غلط کام کیا ہے تو کٹہرے میں لے کر آؤ، اس طرح اس ملک کا کیا بنے گا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کا بیڑا غرق کردیا، اپنی ہمشیرہ کو ایف بی آر سے انہوں نے این آر او دلایا، ان کی اپنی ڈیکلریشن سوالیہ نشان ہے۔آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے عمران خان کے مؤقف پر سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ
جب انہوں نے آرمی چیف کو توسیع دی تھی تو ہم سے مشورہ کیا تھا تو جو آئین اور قانون ہے اس پر سب عمل کریں۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی) لاہور میں عمران خان کے جلسے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جی سی پنجاب کی صوبائی حکومت کے تحت ہے لیکن اگر ہمارے تحت کوئی قانون اور آئینی گنجائش نکلی تو کارروائی کریں گے اور اس معاملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
انہوںنے کہاکہ ہم اس معاملے کو پارلیمان میں بھی لے کر آئیں گے اور یہ بات ناقابل معافی ہے، جس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے سائفر کی تحقیقات کے مطالبے پر بھی سوال ہوا اور انہوں جواب دیا کہ اس میں کون سی ایسی چیز ہے جو تحقیق کے قابل ہے، ہر چیز سامنے آگئی۔انہوںنے کہاکہ صدر پیوٹن سے میری ملاقات ہوئی اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہی خود ایک تحقیق ہے۔
شہباز شریف نے حکومت لے کر مسلم لیگ (ن) کے غیرمقبول ہونے کے تاثر پر کہا کہ اس پر کوئی معذرت نہیں ہے کیونکہ اس شخص نے پاکستان کو دیوالیہ کردینا تھا، اگر ریاست بچانے کے لیے میری سیاست قربان ہوتی ہے تو ایک بار نہیں ہزار بار قربان کرنے کو تیار ہوں۔مفتاح اسمٰعیل کے بطور وزیرخزانہ استعفے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مفتاح اسمٰعیل نے بڑی محنت سے کام کیا
اور ہماری پارٹی کے معزز رکن ہے لیکن ردو بدل ہوتا رہتا ہے اور انہوں نے خود کہا استعفیٰ دینا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار تجربہ کار آدمی ہیں اور امید ہے عرق ریزی سے کام کریں گے اور حالات مزید بہتر کرنے میں ان کا پورا کردار ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، ہم نے اپنا سیاسی سرمایہ اس ملک کی حالت ٹھیک کرنے، غربت ختم کرنے، مہنگائی کم کرنے کے لیے جھونک دیا ہے
کیونکہ یہ ایک اڑدھا بن چکا تھا اور ابھی ہے، اس کے لیے ہم دن رات کام کر رہیں۔عمران خان کے ساتھ بیٹھنے کے تاثر پر پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، پونے چار سال اسمبلی میں بطور قائد حزب اختلاف ان کا جو رویہ تھا وہ سب کے سامنے ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ
گزشتہ دو روز سے ڈالر نیچے آرہا ہے، پوری قوم قیمت میں مزید کمی کیلئے جھولیاں بھر کے دعائیں کرے اور ڈالر 100 روپے پر آجائے تو ہمارے وارے نیارے ہوجائیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے پاکستان کی بہتری کے لیے مانگنا پڑا تو مانگوں گا تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل بہتر ہو اور ہمارا ملک قرض سے نکل جائے۔اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد نوازشریف بھی پاکستان واپس آئیں گے؟
اس سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ انہیں ڈاکٹر نے سفر کرنے سے منع کیا ہے جیسے ہی اجازت ملے گی وہ اپنے ملک واپس آجائیں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ اگر تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپس آنا ہے تو آجائے، جمہوری اقدار کے تحت ان کے ساتھ رویہ رکھا جائے گا۔اپنی کابینہ کا دفاع کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ معاون خصوصی پاکستان کے وسائل کوضائع نہیں کر رہے۔
انہوںنے کہاکہ قسم کھا کر کہتا ہوں معاشی حالات کو ٹھیک کرنے سے فرصت نہیں ملتی، ایوان صدر میٹنگ بارے علم نہیں، مجھے نہیں پتا، ایوان صدرمیں کونسی میٹنگ ہوئی کیا، آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی آڈیو لیک ہوجائے۔ صحافی نے سوال کیا کہ ایک بزنس مین نے کہا ہے کہ آرمی چیف وزیراعظم، عمران خان کو الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ملاقات کرائیں گے، اس پر جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ میرے علم میں ایسی بات نہیں۔