سیول ۔۔۔۔جنوبی کوریامیں جہاں بھی جائیں آپ پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنے آپ کو خوبصورت بنانے کے اشتہارات سے بچ نہیں سکتے۔ٹرین پر ہوں یا سڑک پر آپ کو چھاتی کی سرجری، سکوائر جا ریڈکشن (مربع جبڑے کو کم کرنا)، ناک کی سرجری سمیت طرح طرح کی پلاسٹک سرجری کرنے والے کلینکس کے اشتہارات نظر آئیں گے۔میری ایک واقف کار نے بتایا کہ بارش کی وجہ سے اس کی ٹھوڑی میں تکلیف ہوتی ہے۔ پر پھر پتہ چلا کہ وہ ناک کی سرجری کروانے گئی تھی مگر اس کو ٹھوڑی کی سرجری بھی کروانے پر قائل کر لیا گیا یا پھر وہ خود قائل ہو گئی۔ اس کی ٹھوڑی سڈول تو ہو گئی مگر اس کو وہاں درد رہنے لگا۔ اس کے باوجود اب وہ چھاتی بڑی کروانے کی سرجری کا ارادہ رکھتی ہے۔اس ملک میں والدین اپنی نو عمر بیٹیوں کو آنکھوں کے پپوٹوں کی سرجری کا تحفہ دیتے ہیں، جسے پپوٹا سرجری کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ سے آنکھیں زیادہ واضح اور کم ایشیائی نظر آتی ہیں۔مجھے حیرت ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، کوریائی آنکھیں تو ویسے ہی خوب صورت ہیں۔ان اشتہارات سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ پلاسٹک سرجری پر اعتماد شخصیت اور خوشگوار زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔مگر اب لوگوں میں ایک ردعمل پایا جاتا ہے اور توقعات کے مطابق اچھے نتائج نہ حاصل ہونے پر مریض بڑی تعداد میں ڈاکٹروں پر مقدمات کر رہے ہیں۔مگر اب لوگوں میں ایک ردعمل پایا جاتا ہے اور توقعات کے مطابق نتائج نہ حاصل پر مریض بڑی تعداد میں ڈاکٹروں پر مقدمات کر رہے ہیں۔مسئلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پلاسٹک سرجری ایک بہت منافع بخش کام ہے جس کی وجہ سے کم تربیت یافتہ ڈاکٹروں نے بھی یہ کام شروع کر دیا ہے۔بعض اوقات اشتہار دینے والے ڈاکٹر خود سرجری نہیں کرتے جیسا کہ عدالت میں چلنے والے ایک کیس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مریض کے بے ہوش ہونے کے بعد مشتہر ڈاکٹر آپریٹنگ کمرے سے چلا گیا اور متبادل سرجن نے صحیح سرجری نہیں کی۔حال ہی میں کوریائی پلاسٹک سرجنوں کی ایسوسی ایشن نے ڈاکٹروں اور اشتہار کے لیے سخت قواعد کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ چند لوگوں کی وجہ سے پوری صنعت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔مگر سخت قواعد کے نفاذ کے باوجود پیسے کی کشش کی وجہ سے ناتجربہ کار لوگ پھر بھی اس صنعت میں پیسہ کمانے کی کوشش کر تے رہیں گے۔امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں یہاں قیمتں کافی کم ہیں جس کی وج سے دوسرے ممالک سے بھی لوگ کوریا میں سرجری کروانے آتے ہیں۔امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں یہاں قیمتیں کافی کم ہیں جس کی وج سے دوسرے ممالک سے بھی لوگ کوریا میں سرجری کروانے آتے ہیں۔یہاں کے معروف روزنامہ جونگینگ کے مطابق گذشتہ سال جنوبی کوریا میں پلاسٹک سرجری کے لیے آئے ہوئے غیر ملکیوں میں سے دو تہائی کا تعلق چین سے تھا۔ تقریباً 16,000 سے زیادہ چینی باشندوں نے گزشتہ سال کوریا میں پلاسٹک سرجری کروائی تھی۔یہاں کے اخبارات کے مطابق کچھ لوگوں کی سرجری اتنی کامیاب رہی کہ واپسی پر ایئرپورٹ پر پاسپورٹ حکام نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ جس پاسپورٹ پر سفر کر رہے ہیں وہ ان کا ہے۔کوریا کی ایک سابق ملکہ حسن کا، جس کی چھاتی بڑھانے کی سرجری خراب ہو گئی تھی، کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو مریضوں کو پلاسٹک سرجری کروانے سے منع کرنا چاہیے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ پلاسٹک سرجری ایک عادت کی طرح ہے اگر آپ آنکھوں کی سرجری کروائیں تو پھر آپ کا دل ہوگا کہ ناک کی بھی سرجری کروا لیں۔