واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی جریدہ ”نیشنل انٹرسٹ“ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج کے آپریشن سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مسلسل کمی آرہی ہے ۔اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو 2006 کے بعد دہشت گرد حملوں میں ہلاک پاکستانی شہریوں کی یہ تعداد سب سے کم ہو گی،یہ وہ سال تھا جب طالبان عسکریت پسندوں نے ملک بھر میں اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا۔واقعات میںکمی کی وجہ قبائلی علاقوں اور کراچی میں جاری پاک فوج کاآپریشن ہے انسداد دہشت گردی کا یہ آپریشن سات قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں میں شہر ی دہشت گردی کے خلاف بھی جاری ہے جن میں خاص طور پر کراچی کامیگا سٹی شامل ہے۔پاک فوج نے کراچی شہر کی رونقیں بحال کردیں ہیں۔ کراچی پولیس ریکارڈ کے مطابق کراچی آپریشن کے نتیجے میں2015کے پہلے چھ ماہ میںقتل کے واقعات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 60 فی صد کمی ہوئی،بینک ڈکیتیوں، بھتہ خوری، اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں70سے83فی صد کمی ہوئی۔ جریدے نے کراچی آپریشن اور سیاسی جماعتوں کے کردار پر ایک تفصیلی مضمون میں لکھا کہ پراناکراچی پرامن اور صاف تھا ،آج کا کراچی امریکی تھنک ٹینک کے ماہر رچرڈ نورٹن کے جنگلی شہر “feral city” کی طرح ہے جہاں حکومت نے شہری حدود میں قانون کی حکمرانی قائم رکھنے کی صلاحیت کھو دی اور یہاں بین الاقوامی نظام کے زیادہ سے زیادہ اداکاروں کا راج ہے۔ اسی کی دہائی کے بعد سے تشدد کراچی کی سیاسی اور سماجی نظام کا ایک لازمی حصہ بن گیااس شہر میں سیاسی طاقت اور دولت حاصل کرنے کا ایک لازمی ذریعہ خوف اور قتل کی صلاحیت ہے کراچی کا پر تشددچیلنج کوئی منفرد نہیں، یہ دہلی کے واٹر ٹینکر مافیا ¾میکسیکو سٹی کے اغوا کے نیٹ ورکس، اور ممبئی کی بدنام مجرموں کے ہم پلہ ہے تاہم ان سب کو یکجا کرنے باجود کراچی کی پرتشدد طاقتیں دنیا کی سب سے پیچیدہ طاقتوںمیں سے ایک ہیں۔کراچی میں ریاست مخالف اور بین الاقوامی جہادی گروپ وسیع پیمانے پر دہشت گرد حملوں کو منظم کرتے ہیںجن کا ہدف سیاستدانوں، ریاستی اہلکاروں، اداروں، مذہبی اقلیتوں اور غیر ملکیوں کو نشانہ بنا نا ہے۔ کراچی میںنسلی، فرقہ وارانہ اور ریاست مخالف عسکریت پسند جن میںعام طور پر موٹر سائیکل پر دو سوار اپنے حریفوں اور دشمنوں کی روزانہ ٹارگٹ کلنگ میں مصرف نظر آتے ہیں۔ان گروپوں میںسے بعض قاتل بھارت، ایران اور جنوبی افریقا سے تربیت اور پناہ حاصل کرتے ہیں بھتہ خور سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور دہشت گرد گروپوں کے فنڈز اکٹھا کرنے کے لئے عام شہریوں اور کاروباری شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھتہ خور کبھی کبھی افغانستان یا جنوبی افریقہ سے فون کرتے ہیں۔ریئل اسٹیٹ مافیا براہ راست یا بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق جوڑ کے سرکاری زمینیں ہڑپ کرتی ہے جنہیں وہ فروخت کرتی ہے یا ہاﺅسنگ سوسائٹیاں کھڑی کرتی ہے۔ دہشت گرد نیٹ ورک پاکستان بھر میں پرتشدد کارروائیوں کے فنڈز کے لئے امیروں کو اغوا اوربینکوں کو لوٹتے ہیں۔ شہر میں حالیہ پرتشدد سیاست نے2010 میںجنم لیا۔ ایم کیو ایم اور پی پی کا اتحاد واشنگٹن اور لندن کے بیوروکریٹ نے دبئی میں کرایا جس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے سیکولر جماعتوں کو اکھٹا کرنا تھا۔ ایم کیو ایم لوکل انتخابا ت چاہتی تھی ، تاہم پی پی کو لوکل انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے دو کروڑ تیس لاکھ لوگوں کے شہر پر مقرر کردہ بیوروکریٹس کے ذریعے حکومت کرنے کو ترجیح دی۔لیکن کراچی میں دونوں سیاسی جماعتوں کی چپقلش نے القاعدہ اور طالبان کی حوصلہ افزائی کی۔ نائن الیون کے بعد پشتونوں کی بھاری تعداد نے کراچی کارخ کیا اور آبادی دگنا ہو گئی، کراچی میں متحدہ ، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے برسر پیکا ر ہوئیں اور پرتشدد سیاست سامنے آئی ¾ تینوں سیکولر جماعتوں نے ایک دوسرے کے لوگوں کو مارا، اس کے علاوہ طالبان ،القاعدہ اور دیگر مذہبی عسکریت پسندوں نے کراچی میں ہزاروں لوگوں کو ہلاک کیا،2010میں ہلاکتوں کی تعداد1981 ¾2013میں یہ تعداد3251تک جا پہنچی۔ کراچی آپریشن ستمبر2013میں شروع کیا گیا۔شروع میں آپریشن کے لئے کوئی بھی سیاسی جماعت دلی طور رضامند نہیں تھی، تاہم فوج نے مسلسل دوسرے سال تما م رکاوٹوں کے باوجود آپریشن جاری رکھا، اور کراچی میں قدرے حالات پرسکون ہو گئے۔