لاہور(نیوزڈیسک) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ملک کو درپیش سنگین خطرات کے پیش نظر سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہئیں ،عمران خان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی پارٹی اورسیاست کو چمکانے کی بجائے مفاہمت کی سیاست کریں اور سسٹم اور ملک کو بچانے کیلئے کام کریں ،ایم کیو ایم پارلیمنٹ میں واپس آ کر اپنا کردار ادا کرے اور پر امید ہیںکہ ایم کیو ایم پارلیمنٹ میں واپس آئے گی ،دعا گو ہوں کہ حکمرانوں کا فوج کے ساتھ تعلق اچھا رہے ،چیئرمین نیب سے ملاقات کے لئے خط لکھ دیا ہے ،مودی صرف اپنی سیاسی بقاءکے لئے پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے ، حکومت اس معاملے میں سفارتی تعلقات استعمال کرے اور دنیا کو بھارت کے جارحانہ رویے سے آگاہ کرے ،پہلے ہی مطالبہ کر چکے ہیں کہ چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر نوید چوہدری اور چوہدری منظور بھی موجود تھے۔ سید خورشید شا ہ نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی شروعات پیپلز پارٹی کے دور میں کی گئی ۔ ہم نے سوات میں امن قائم کیا اور تیس لاکھ آئی ڈی پیز کو امن قائم کرنے کے بعد دوبارہ ان کے گھروںمیں آباد کیا ۔ انہوں نے کراچی آپریشن کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے کیونکہ جب کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس کا نقصان حکومت کو اٹھانا پڑتا ہے اور اس طرح مسائل اور بڑھتے ہیں۔ انہوںنے سوال اٹھایا کہ آپریشن صرف سندھ میں ہی کیوں کیا جارہا ہے ،اس کا دائرہ کار دیگر صوبوں تک کیوں نہیں بڑھایا جارہا ۔ رینجرز باقی صوبوں میں مداخلت کیوں نہیں کرتی کیا کرپشن صرف سندھ میں ہے یہ عنصر پورے ملک میں پایا جاتا ہے ۔ ہم کرپشن کی حمایت نہیں کرتے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ اگر کسی ادارے کو کراچی میں کچھ تحفظات ہیں تو اس بارے میں وزیر اعلیٰ سندھ سے براہ راست بات کی جانی چاہیے ۔ انہوںنے کہا کہ ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں واپس آئے اور اپنا سنجیدہ کردار ادا کرے ۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلے ۔ حکومت ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتی ہے اور اس دوران اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ ہمیں امید ہے کہ ایم کیو ایم جلد پارلیمنٹ میں واپس آئے گی ۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے تحفظات کے سوال کے جواب میں کہا کہ مانیٹرنگ کمیٹی کا قیام لازمی ہونا چاہیے کیونکہ وہاں کچھ بے گناہ افراد کو پکڑے جانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ انہوںنے ناہید خان کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ انہیںپارٹی میں اہم کردار دیا گیا تھا جو کہ انہوں نے چھوڑ دیا اب اگر وہ الگ سے پارٹی بنا رہی ہیں تو یہ ان کا ذاتی حق ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ آصف علی زرداری ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں بیرون ملک سے واپس آ جائیں گے ۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری بیرون چلے گئے کبھی کہا جاتا ہے فریال تالپور چلی گئیں کوئی کہیں نہیں گیا پیپلز پارٹی یہیںہے اور ہمیشہ رہے گی اور جمہوریت کے لئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی ۔ انہوں نے این اے 122کے حوالے سے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے بارے سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جانا ہے ۔ عدلیہ آزاد ہے اور جو بھی فیصلہ آئے دونوں کواس فیصلے کو ماننا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں تو بہت پہلے سے کہہ چکا ہوں کہ چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز کو مستعفی ہوجانا چاہیے لیکن ان کی تنخواہیں اور مراعات اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ یہ عہدے اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اس بارے بطور اپوزیشن آواز اٹھانے کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کام حکومت کا ہے اپوزیشن نہیں کر سکتی جہاں تک مطالبے کا سوال ہے تو وہ ہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات سے حل ہونا چاہیے او راسکے لئے اقوام متحدہ میں قراردادیں موجود ہیں۔ جنگ دونوں ممالک کے فائدے میں نہیں اس سے دونوں کے مسائل میں اضافہ ہوگا اور غربت بڑھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکاراپنی سیاسی بقاءکے لئے پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں سفارتی ذرائع استعمال کرے اور دنیا میں کو بھارت کے جارحانہ رویہ سے آگاہ کیا جائے ۔ انہوں نے اس سوال کہ آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائے اور سندھ اسمبلی میںموجود رہے کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کبھی ایسا نہیں چاہیں گے اگر وفاق میں استعفے واپس ہوں گے تو صوبائی میں بھی ہر صورت واپس ہوں گے۔ انہوں نے عمران خان کی طرف سے دوبارہ دھرنے کی دھمکی کے سوال کے جواب میں کہا کہ پہلے اپوزیشن جماعتوں کے دباﺅ کی وجہ سے حکومت نے انہیں ڈی چوک آنے کی اجازت دی ۔لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ ملک کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ پاکستان کو اس وقت جن سنگین خطرات کا سامنا ہے ایسے میں عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں کو اس ملک کو اور سسٹم کو بچانے کےلئے مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے ۔ عمران خان کو چاہیے کہ مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھائیں نہ کہ صرف اپنی پارٹی اور اپنی سیاست کو چمکانے کےلئے کام کریں۔