اسلام آباد (این این آئی)وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا سے کہا ہے کہ وہ سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے ضم شدہ اضلاع سے صحت کارڈ سے فائدہ اٹھانے والوں کو صوبے کے صحت کارڈ پلس پروگرام میں شامل کرے، کیونکہ وفاقی حکومت 30 جون سے قبائلی علاقوں کے لیے ہیلتھ انشورنس اسکیم کی فنڈنگ بند کررہی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق
خیبرپختونخوا حکومت نے مرکز کے ضم شدہ اضلاع کے بجٹ کو رواں مالی سال کے لیے منجمد کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آ نے والے اس اقدام پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔8 جون کو وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن نے خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کو خط لکھا تھا کہ ضم شدہ اضلاع (سوائے خیبر اور باجوڑ) کے لیے ہیلتھ انشورنس پروگرام کا دوسرا مرحلہ 30 جون 2023 تک مکمل ہونے جا رہا ہے۔خط میں درخواست کی گئی کہ صحت کارڈ پیکجز کو برقرار رکھنے کے لیے فروری سے پہلے وزیر اعظم کی منظوری پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدامات کریں۔خط میں کہا گیا کہ فنڈنگ سے متعلق مسائل کو خیبرپختونخوا حکومت کے متعلقہ محکموں ذریعے نمٹایا جانا چاہیے، وزارت صحت اس کوشش کی مکمل حمایت کرے گی۔ردِ عمل میں خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ضم شدہ اضلاع کے مکینوں کو صحت کارڈ پلس پروگرام میں شامل کرنے کے لیے اپنی دلچسپی کا اعادہ کیا اور اس کوشش کے لیے ضروری خدمت اور فنڈز کو بڑھانے کی تصدیق کی ہے تاہم یہ دلچسپی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں اس مقصد کے لیے مختص وفاقی فنانس ڈویڑن کی جانب سے رقم کی منتقلی پر منحصر ہے۔خط میں کہا گیا کہ عمل درآمد کی سطح کے تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جس میں خیبر پختونخوا صحت کارڈ پلس پروگرام میں موجود خاندانوں کا ڈیٹا بھی شامل ہے۔
محکمہ صحت نے نشاندہی کی کہ ضم شدہ اضلاع کے لوگوں نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت خیبرپختونخوا کے صحت پروگرام سے حصہ نہیں لیا، لہذا یہ ضروری ہے کہ وفاقی حکومت مالیاتی وسائل کے ساتھ سابق فاٹا کے لیے اپنا صحت سہولت پروگرام صوبے میں منتقل کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات نہ کیے جانے کی صورت میں، ضم شدہ اضلاع میں صحت کارڈ پلس کی دستیابی کی کمی خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔خیبرپختونخوا کے وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے بتایا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ سابق فاٹا کا ہیلتھ انشورنش پروگرام اور اس سے متعلق فنڈنگ کے
مسائل سے صوبائی حکومت نمٹے یہ ناقابلِ قبول ہے۔بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کی سہولت پہلے ہی وفاقی پی ایس ڈی پی کو دی گئی تھی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت 5 ارب روپے بچانے کے لیے سابق فاٹا کے عوام کو صحت کی سہولت سے محروم کرنا چاہتی ہے
۔قبل ازیں اکتوبر 2021 میں خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت نے مرکز کے ساتھ سابق فاٹا کے لیے ہیلتھ انشورنس اسکیم کو صوبے کے ساتھ شامل کرنے کا معاملہ اٹھایا تھا، کیونکہ ضم شدہ اضلاع کے لیے پی ایس ڈی پی کی مختص رقم میں صحت کی کوریج شامل نہیں تھی۔
اس مقصد کے لیے مستقل انتظام نہ ہونے تک مختص رقم کو صوبائی حکومت کو ماہانہ بنیادوں پر منتقل کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، اس وقت کی پاکستان تحریک انصاف کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے اس تجویز کی منظوری دی تھی تاہم،
وفاقی حکومت کے ذرائع نے خیبرپختونخوا حکومت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے پروگرام کی صرف خیبرپختونخوا میں منتقلی کی منظوری دی تھی اور سمری میں فنڈز کا کوئی ذکر نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے خیبرپختونخوا حکومت سے
صرف زبانی طور پر اتفاق کیا تھا، اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اس تجویز کی منظوری نہیں دی تھی۔انہوں نے زور دیا کہ خیبرپختونخوا حکومت کے پاس دعوؤں کی حمایت کرنے کے لیے کاغذی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔نجی ٹی وی کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ
اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے 21 فروری کو وفاقی صحت سہولت پروگرام سے مستفید ہونے والے اضلاع سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو متعلقہ پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے عملے، اثاثوں اور واجبات کے ساتھ خیبرپختونخوا کو منتقل کرنے کی سمری کی منظوری دی تھی۔
علاوہ ازیں انہوں نے پروگرام کے پی سی ون پر نظرثانی کی بھی منظوری دی تھی۔سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا تھا کہ ان کی وزارت اور منصوبہ بندی اور ترقی نے بجٹ میں پروگرام کو ریگولرائز کرنے کے لیے اس معاملے کو ای سی سی کے پاس لے جانے پر باضابطہ طور پر اتفاق کیا تھا،
کو ایک ضروری طویقہ کار ہے تاہم اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتے ان کی حکومت کو دروازہ دکھا دیا گیا۔دریں اثنا، قومی صحت کی وزارت نے ایک تحریری بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع کی ہیلتھ اسکیم کو کے پی حکومت میں منتقل کرنے کی منظوری 21 فروری کو سابق وزیراعظم عمران خان نے صوبے کی درخواست پر دی تھی۔بعدازاں خیبر پختونخوا حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وفاقی حکومت مستفید خاندانوں کے لیے خدمات کے تسلسل کے لیے منظوری پر عمل کرے گی۔