اسلام آباد(این این آئی)وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہاہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف خود پاکستان نہیں آئینگے ،ہم واپس لائیں گے ،ملزمان کی حوالگی پر برطانیہ سے بات کررہے ہیں ، ملکر قانون سازی کرینگے ،رانا شمیم کیس میں سیسلین مافیا بے نقاب ہوا ، اپوزیشن رہنما دیہاڑی دار سیاست دان ہیں ، حکومت کی گرانے کی باتیں پہلے بھی ہوئیں اب بھی ہورہی ہیں ،
مارچ کی پہلی بھی کئی تاریخیں دی جاچکی ہے ، میڈیا عوام کے سامنے لائے ،نوازشریف اور زر داری نے ملک کو نقصان پہنچایا اس لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے ، فنانس ترمیمی بل قومی اسمبلی کے اسی سیشن میں پیش کیا جائیگا، عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑیگا، کابینہ نے قومی سلامتی کی پالیسی کی منظوری دیدی ہے،پہلی مرتبہ قومی سلامتی کی پالیسی میں جیو اسٹریٹجک پالیسی کے ساتھ اکنامک اسٹریٹجی کو بھی منسلک کیا گیا ہے،اگر معیشت طاقتور نہیں تو سلامتی کی گارنٹی نہیں ہو سکتی، جب تک عام آدمی معاشی، سماجی اور قانونی حالت سے مطمئن نہیں ہوگا، ملک کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق رہے گا، پنجاب حکومت یوریا کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ پر بھرپور کارروائی کرے،یوریا کی مصنوعی قلت پر قابو پا لیا جائے گا، اڑتالیس گھنٹوں میں واضح بہتری آ جائیگی،پاکستان میں صرف سیاستدان ہی ہیں جن کے ٹیکسز عوام کے سامنے آتے ہیں، باقی کسی شعبہ میں اتنی اکائونٹیبلٹی نہیں جتنی سیاستدانوں پر ہے،نئی ڈائریکٹری کے نتیجے میں ٹیکس کی ادائیگیاں بھی سامنے آ جائیں گی،ناظم جوکھیو قتل کی تحقیقات کیلئے مشترکہ کمیٹی قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے ،وزارتیں خالی اسامیوں پر چھ ماہ کیلئے لوگ بھرتی کرسکتی ہیں ۔منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد مشیر قومی سلامتی معید یوسف کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہاکہ وفاقی کابینہ نے قومی سلامتی کی پالیسی کی منظوری دے دی ہے، پہلی مرتبہ قومی سلامتی کی پالیسی میں جیو اسٹریٹجک پالیسی کے ساتھ اکنامک اسٹریٹجی کو بھی منسلک کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ اگر معیشت طاقتور نہیں تو سلامتی کی گارنٹی نہیں ہو سکتی۔ انہوںنے کہا کہ جب تک عام آدمی معاشی، سماجی اور قانونی حالت سے مطمئن نہیں ہوگا، ملک کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق رہے گا۔ انہوںنے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی میں عام آدمی پر
فوکس کیا گیا ہے، 2014ء میں اس پالیسی پر کام شروع کیا گیا تھا، 2021ء میں اس پالیسی کی منظوری ہوئی۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ پالیسی کی منظوری میں تقریباً 9 سال لگے، 18 مختلف وزارتوں کا ان پٹ اس میں شامل ہے، ماضی میں نیشنل سیکورٹی پالیسی پر نکتہ نظر پر اتفاق نہیں ہوا، پہلی مرتبہ ایک ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو تمام نکتہ ہائے نظر کو یکجا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پہلی مرتبہ ہم نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ نیشنل سیکورٹی پالیسی کے ساتھ انٹرنل پالیسی اور فوڈ سیکورٹی پالیسی سمیت دیگر وزارتوں کی پالیسیاں بھی منسلک ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کابینہ کو یوریا کی پیداوار پر بریفنگ دی گئی، اس وقت پاکستان میں زرعی شعبہ حکومت کی اہم ترجیح ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ
گزشتہ دو سالوں میں زرعی پیداوار میں بے پناہ کامیابیاں ملی ہیں، ہماری کپاس، گنے اور چاول، گندم اور مکئی کی فصلوں کی پیداوار میں بہتری آئی ہے، گندم، چاول اور گنے کی تاریخی پیداوار ہوئی ہے۔چوہدری فواد حسین نے کہاکہ 1100 ارب روپے اضافی زرعی شعبہ میں گیا، رورل سیکٹر میں ٹریکٹروں، موٹر سائیکلوں، زرعی ادویات کی خریداری میں اضفافہ ہوا۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ کھاد کا ایک بحران پیدا ہوا،
عالمی منڈی میں ڈی اے پی کی قیمت تقریباً بارہ ہزار روپے پر چلی گئی، ڈی اے پی پاکستان نہیں بناتا، 70 فیصد سے زیادہ درآمد کی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہ اکہ گیس کے بحران کے باوجود ہم نے یوریا پلانٹس کو گیس فراہم کی، اس سال پاکستان میں یوریا کی تاریخی پیداوار ہوئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہاکہ عالمی منڈی میں یوریا کی قیمت 10500 روپے کے لگ بھگ ہے، پاکستان میں یوریا کی
قیمت 1700 روپے سے 1900 روپے کے درمیان ہے۔ چوہدری فواد حسین نے کہاکہ عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان میں یوریا کی قلت کئی جگہوں پر محسوس ہوئی، ہمارے پاس یوریا کا ذخیرہ موجود ہے، قیمت بھی مستحکم ہے، پیداوار بھی ٹھیک ہے لیکن کچھ جگہوں پر ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ ایک ٹرک یوریا سمگل ہو تو تقریباً 80 لاکھ روپے تک بچائے جا سکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پنجاب حکومت سے کابینہ نے کہا ہے کہ
یوریا کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ پر بھرپور کارروائی کرے۔ فواد چوہدری نے کہاکہ یوریا کی مصنوعی قلت پر قابو پا لیا جائے گا، اڑتالیس گھنٹوں میں واضح بہتری آ جائے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کابینہ نے ارکان پارلیمنٹ کی 2019ء کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع کرنے کا حکم دیا ہے، پاکستان میں صرف سیاستدان ہی ہیں جن کے ٹیکسز عوام کے سامنے آتے ہیں، باقی کسی شعبہ میں اتنی اکائونٹیبلٹی نہیں جتنی سیاستدانوں پر ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ عمران خان نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جس کی بنیادی
شفافیت پر مبنی ہے، سیاستدانوں اور ان کے خاندان کے اثاثے ہمارے سامنے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ نئی ڈائریکٹری کے نتیجے میں ٹیکس کی ادائیگیاں بھی سامنے آ جائیں گی۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ قومی سلامی پالیسی پر تمام سول اور عسکری ادارے اور وزارتیں متفق ہیں، قومی سلامتی پالیسی عوام کے لیئے بھی ریلیز کی جائے گی اور ہم چاہتے ہیں کہ اس پر بحث ہو اور لوگ اپنی رائے کا اظہار کریں۔وزیراطلاعات نے بتایا کہ وزارت خارجہ کی سفارش پر ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی
تعیناتی کی منظوری دی گئی ہے، جن میں شہزاد نقوی، فائزہ کپاڈیا، یاسمین لاری، عدنان علی اور عمران احد شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ تمام تعلیمی بورڈز میں دستاویزات کی تصدیق، بورڈز کے آپس میں روابط اور تعاون کو بڑھانے کیلیے کابینہ نے انٹر میڈیٹ بورڈ کوآرڈینیشن کمیشن کیلیے مسودے کے اصولی منظوری دی ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) میں
محمد عاصم کو بطور ایگزیکٹیو تعینات کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیٹیزن بلڈنگ ایف نائن پارک کو گندھارا ہیریٹیج اینڈ کلچر سینٹر میں تبدیل کیا جارہا ہے، اس حوالے سے کمیٹی کی سربراہی وزیر اعظم کریں گے۔فواد چوہدری نے بتایا کہ کابینہ کے اجلاس میں ناظم جوکھیو کے قتل کی تحقیقات کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) بنانے کی منظوری دی ہے
۔انہوں نے کہا کہ اٹلی میں مبینہ قتل میں ملوث ہونے پر مسمات نازیہ شاہین اور شبر عباس کو اٹلی کی حکومت نے تحویل میں لینے کا مطالبہ کیا تھا، یہ لوگ اٹلی میں قتل کر کے پاکستان آگئے تھے تاہم ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا اور انہیں واپس اٹلی بھیج دیا جائے گا،اسی طرح متحدہ عرب امارات نے محمد عثمان کو تحویل میں لینے کا مطالبہ کیا تھا انہیں متحدہ عرب امارات بھیجنے کی کارروائی کی جارہی ہے۔کابینہ کے فیصلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی سفارش پر بینکاری
کورٹ نمبر ایک کو ملتان سے ڈیرہ غازی خان منتقل کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ گوادر میں 20 کروڑ گیلن پانی کا پلانٹ لگانے کی منظوری دی گئی ہے، یہ سی پیک کا منصوبہ ہے اور اس سے گوادر کے شہری صاف پانی حاصل کر سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شائستہ ذیشان کو 4 سال کے لیے ایگزیکٹیو ممبر نیشنل میڈیکل اتھارٹی تعینات کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی کی سفارش پر تین ادویات کی بناوٹ میں تبدیلی کی منظوری دی گئی ہے لیکن ان کی
قیمت فروخت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔انہوںنے کہاکہ کابینہ نے وزارت منصوبہ بندی کی سفارش پر پاکستان پلاننگ اینڈ منیجمنٹ بل 2021 کا مسودہ کمیٹی کو بھیجا ہے جبکہ کابینہ نے مؤخر شدہ بلوں کی بھی منظوری دی ہے۔انہوں نے بتایا کہ کیوبا کو کورونا کی مد میں 23 ملین روپے کی اشیاء فراہم کی جارہی ہیں، کورونا کا پہلا کیس آیا تو ہم ہر چیز امپورٹ کرتے تھے، آج پاکستان کووڈ سے متعلق میڈیکل سامان کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وزارتوں کو اختیار دیا گیا ہے وہ خالی اسامیوں پر
چھ ماہ کیلئے لوگ بھرتی کرسکتے ہیں۔اپوزیشن کی تنقید پر بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہاکہ یہ تین سال سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت نہیں ہوگی، پہلی بار مولانا فضل الرحمن کاٹھ کباڑ لے کر اسلام آباد آگئے تھے، حکومت گرانا ان کے بس کی بات نہیں، یہ سیسلین مافیا ہے، عدالتوں کو دبائو میں لاکر اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہاکہ منی بجٹ نہیں، یہ ایڈجسٹمنٹ ہے، آئی ایم ایف میں نہیں جائیں تو اپوزیشن متبادل دیدے۔انہوںنے کہاکہ یہ سارے دیہاڑی دار سیاست دان ہیں، نوازشریف
اور آصف زرداری نے ملک کو نقصان پہنچایا اس لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑرہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ رانا شمیم کیس میں سیسلین مافیا بے نقاب ہوا ۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کو ہم واپس لائیں گے وہ خود نہیں آئیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ ملزمان کی حوالگی پر برطانیہ سے بات کررہے ہیں اور ملکر قانون سازی کرینگے ۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کا مقصد پاکستان کے عام شہری کو تحفظ پہنچانا ہے، معیشت مضبوط ہوگی تو ہم عوام پر خرچ کرسکیں گے
، قومی سلامتی پالیسی کا 2014ء سے سلسلہ شروع ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ سول اور ملٹری لیڈر شپ نے مل کر کام کیا، آج جو مسودہ منظور ہوا ہے اس پر تمام اداروں کا اتفاق ہے، وزیراعظم کی ہدایت پر ہر ماہ قومی سلامتی پالیسی پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔انہوںنے کہا کہ ایک ہفتہ میں قومی سلامتی پالیسی کو پبلک کریں گے۔انہوںنے کہاکہ کسی بھی ملک کا اگر قومی سلامتی ویژن کلیئر نہ ہو تو اس کے نیچے پالیسیاں اور حکمت عملی بنانا بہت مشکل ہوتا ہے، اس پالیسی میں قومی سلامتی کے تمام
پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان جامع قومی سلامتی کی بات کریگا اور سلامتی کا مقصد پاکستان کے عام شہری کا تحفظ ہوگا، پالیسی میں قومی سلامتی کا بنیادی نکتہ اقتصادی سلامتی ہوگی کیونکہ اقتصادی سلامتی سے جب معیشت مضبوط ہوگی تو ہمیں ملٹری سیکیورٹی اور انسانی سیکیورٹی پر بھی اخراجات کرنے کے وسائل دستیاب ہوں گے۔انہوںنے کہاکہ پالیسی میں خارجہ امور کے
حوالے سے ہمارا ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ امن ہے اور امن ناصرف پڑوسی ممالک بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی۔معید یوسف نے کہا کہ جب ہم قومی ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ثقافتی، نسلی تنوع کی بات آتی ہے اور چاہتے ہیں کہ اس کے ارد گرد ہمارا اتحاد قائم ہو، انسانی سلامتی میں ہم نے سب سے زیادہ آبادی کو اہمیت دی ہے، اس کے بعد صحت، ماحولیات اور پانی، تحفظ خوراک اور پھر جنس کو اہمیت دی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی سلامتی کے اہم نکات میں بیرونی عدم توازن جس کی وجہ سے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہے، توانائی سیکیورٹی اور تعلیم کو ہم نے معیشت میں شامل کیا ہے
کیونکہ تعلیم کے ایک حصے کا تو قومی سلامتی سے تعلق ہے جس میں اتحاد اور انتہا پسندی شامل ہے، دوسرا مسئلہ تعلیم سے جڑا انسانی وسائل کی پیداوار ہے جس سے ملک میں بھی فائدہ ہوگا اور انسانی وسائل کی برآمد بھی ہوگی۔انہوںنے کہاکہ پالیسی کی تشکیل کا عمل 2014 میں شروع ہوا تھا، اس میں بہت پیچیدگیاں اور حساس معاملات ہیں، اس عرصے میں وزارتوں کے چار راؤنڈز ہوئے، صوبوں سے تجاویز آئیں، سول۔ ملٹری قیادت اور اداروں نے مل کر کام کیا اور پالیسی میں تمام وزارتوں، سول۔ ملٹری اداروں کا اتفاق ہے۔مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ اس پالیسی میں 2014 سے آج تک 600 سے زائد پاکستانی ماہرین
، ماہرین تعلیم، طلبہ اور نجی شعبے سے ہم نے ان پْٹ لیا گیا، نظام کے اندر اور باہر بہت مشاورت کے بعد یہ پالیسی سامنے آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اسے قومی سلامتی پالیسی اون کرتی ہے، اس پر عملدرآمد کا پورا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور گزشتہ روز وزیر اعظم نے قومی سلامتی ڈویڑن کو ہر ماہ قومی سلامتی کمیٹی کو یہ اپ ڈیٹ دینے کی ہدایت کی ہے کہ کونسی چیزوں پر عملدرآمد ہوگیا، کہاں مسائل ہیں اور وہ کیسے حل ہونے ہیں۔قبل ازیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں
معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی منظوری تاریخی کامیابی ہے، عوام پر مبنی جامع پالیسی جس کا بنیادی مقصد اقتصادی تحفظ ہے، اس پر اب پوری تندہی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پالیسی، جسے ابھی تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا، ملک کی قومی سلامتی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے شعبہ جاتی پالیسیوں کی رہنمائی میں مدد کرے گی۔معید یوسف نے سول اور عسکری قیادت کا ان کی حمایت اور معاونت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی وزیر اعظم عمران خان کی مستقل قیادت اور حوصلہ افزائی کے بغیر کبھی منظر عام پر نہیں آتی۔انہوںنے کہاکہ پالیسی کی کامیابی اس کے نفاذ میں مضمر ہے جس کے لیے منصوبہ تیار کیا گیا ہے، اس کا عوامی ورڑن وزیر اعظم مقررہ وقت میں شروع کر دیں گے۔