اسلام آباد(نیوزڈیسک) آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے رکن کی تقرری پر سوال اٹھنے سے ادارے کے غیر فعال ہونے کا خدشہ پید ا ہوگیا ہے ۔ اوگرا کے رکن کی تقرری پر سوال اٹھنے سے اس کے کورم کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، جس کی تکمیل ایک سال بعد حال ہی میں ایک رکن کی تقرری کے بعد ہوئی تھی ۔ اوگرا کے ارکان کی تعداد پوری نہ ہونے سے ادارہ غیر فعال ہوجاتاہے۔ جس شخص کو اوگرا کا رکن بنایا گیا تھا اس نے سینئر افسر کے ایک اور عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ اوگرا رکن کے طور پر مذکورہ شخص کی تقرری اوگرا آرڈیننس کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق جوشخص بھی اوگرا کا رکن بننا چاہتاہے، اسے لازمی طور پر اپنے موجودہ عہدے سے مستعفی یا ریٹائر ہونا پڑیگا۔رونامہ جنگ کے نمائندہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ شخص کی بطور سینئر افسر تنخواہ 5لاکھ روپے سے زیادہ ہےجبکہ رکن اوگرا کی تنخواہ ساڑھے چار لاکھ روپے ہے، حیرت انگیز طور پر اس رکن نے 50ہزار روپے ماہانہ کی قربانی دی۔ اوگرا کے سینئر افسران اس پیش رفت پر بہت پریشان ہیں ۔ اوگرا رکن کی اسامی پر تقرری کیلئے بڑے اخبارات میں اشتہار دیا گیا تھا ، جس میں یہ شرط بھی عائد کی گئی تھی کہ اوگرا کا رکن مقرر ہونے کے بعد کامیاب امیدوار کو اپنے موجودہ عہدے سے مستعفی یا ریٹائر ہونا پڑیگا۔ اوگرا کے ایک سینئر افسر کاکہنا ہےکہ مذکورہ رکن اوگرا نے اپنے دوسرے عہدے سے(لیژین بیسڈ) مشروط استعفیٰ دیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہےکہ اگر دو سال بعد ان کی اوگرا کی رکنیت میں توسیع نہ گئی تو وہ بطور سینئر افسر اپنی ملازمت جاری رکھیں گے اور ان دو سالوں میں انہیں دوسرے سینئر افسر کے عہدے کی تنخواہ اور مراعات بھی ملتی رہینگی۔ ذرائع کاکہنا ہےکہ اوگرا آرڈیننس کے تحت ایسے استعفے کی اجازت نہیں ہے ، کچھ افسران اس غیر قانونی تقرری کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس رکن نے جمعے کو لیژین بیسڈ استعفیٰ اوگرا چیئرمین کو بھیجا ، جنہوں نے اسے کابینہ ڈویژن کو ارسال کردیا ، جس نے اسے منظور کرلیا۔ ذرائع کاکہنا ہےکہ قبل ازیں مجاز اتھارٹی نے ایک شخص کا بطور رکن اوگرا تقرر کیا ، جس نے اوگرا میں شمولیت سے انکار کردیا۔ جس کے بعد سمری میں موجود دوسرے شخص کے نام کی اوگرا کے رکن کے طور پر منظوری دیدی گئی۔