رام اللہ (نیوزڈیسک )اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ)کی جانب سے بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی قیدیوں کو جبری خوراک دینے کے ایک متنازع قانون کی منظوری کے بعد فلسطین کے عوامی حلقوں میں سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کے مندوبین اور شہریوں نے اس قانون کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری خوراک دینے کا قانون قیدیوں کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق 70 سالہ فلسطینی شہری موسی ابو بکر جس نے اپنی زندگی کے 16 سال اسرائیلی جیل میں گذارے نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعات کو دہرایا جب اس نے بھوک ہڑتال کی تھی اور اس کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے اسے جبری خوراک دینے کی کوشش کی گئی تھی۔موسی ٰابو بکرنے بتایا کہ ایام اسیری کے دوران میں نے بھوک ہڑتال شروع کی۔ جب بھوک ہڑتال کو دو ہفتے مکمل ہوگئے تو جیلروں نے مجھے جبری خوراک دینے کی کوشش کی۔ جبری خوراک دینے کا عمل نہایت تکلیف دہ تھا اوروہ تکلیف مجھے آج تک نہیں بھولی ہے۔ جبری خوراک دینے کے عمل میں ناک اور منہ سے ایک نالی کے ذریعے خوراک دی جاتی۔ نالی کو ناک اور منہ سے معدے تک پہنچانے کا عمل نہایت تکلیف دہ ہوتا اور وہ تکلیف مجھے آج بھی یاد ہے۔جبری خوراک دیے جانے کا یہ واقعہ صرف موسی ابو بکرتک محدود نہیں بلکہ سنہ 1980 میں فلسطین اسیران کو جبری خوراک دینے کے قانون پرعمل درآمد کیا، جب انسانی حقوق کی جانب سے سخت تنقید کے بعد اسرائیل میں یہ قانون ایک بارپھر زیربحث آیا اور کچھ عرصہ کے لیے اس پرپابندی لگادی گئی تھی، لیکن یہ پابندی بھی عارضی ثابت ہوئی۔ بھوک ہڑتالیں کرنے والے فلسطینی قیدیوں کی زندگیاں جب خطرے سے دوچار ہونے لگیں اور یہ تاثر ابھرا کہ بھوک ہڑتال سے قیدی کی جان جاسکتی ہے تواسے بچانے کے لیے جبری خوراک دینے کا ظالمانہ ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا قانون بحال کردیا گیا۔فلسطینی وزیر برائے امور اسیران عیسی قراقع کا کہنا ہے کہ “قیدیوں کو جبری خوراک دینے کا عمل تشدد کا ایک حربہ ہے جس کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے۔ اس قانون پرعمل درآمد کرنے سے قیدیوں کی زندگی مزید خطرے میں پڑسکتی ہے”۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں کھلے عام قیدیوں کے بنیادی حقوق کی سنگین پامالی جاری ہے۔ آج تک کسی ملک نے نہایت خطرناک قیدیوں کو بھی جبری خورک دینے کا ظالمانہ طرز عمل نہیں اپنایا۔ یہ ہتھکنڈہ انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور قیدیوں کو سماجی، انسانی، ثقافتی، سیاسی اور قانونی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔خیال رہے کہ اسرائیلی کنیسٹ نے گذشتہ روزقیدیوں کو جبری خوراک دینے کے متنازعہ قانون پر دوسری اور تیسری رائے شماری کرائی۔ ایوان میں موجود 46 ارکان نے قانون کی حمایت اور 40 نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ قانون کی منظوری کے بعد اسرائیل کے سیکیورٹی اداروں کو کسی بھی بھوک ہڑتال فلسطینی کو جبری خوراک دینے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔
اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت 6000 سے زائد فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ان میں سے اکثر کوئی نہ کوئی قیدی بھوک ہڑتال کرتا رہتا ہے۔ سب سے طویل بھوک ہڑتال کا ریکارڈ سامر العیساوی نامی قیدی نے آٹھ ماہ تک مسلسل بھوک ہڑتال کرکے قائم کیا تھا۔
جبری خوراک کا اسرائیلی قانون قیدیوں کے لیے سنگین خطرہ
31
جولائی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں