کابل(نیوزڈیسک)افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا محمد عمر کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ طالبان نے انہیں اسلامی امارات کے امیر المومنین کا خطاب دیا تو امریکا نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی۔ 1959ء میں قندھار کے ایک پشتون گھرانے میں پیداہونے والے ملا عمر نے دینی مدرسوں سے تعلیم پائی۔ پہلے وہ سابق سوویت فوج کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے۔ ایک معرکے میں زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔1989ء میں سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد ملامحمد عمر واپس اپنے گا ؤں چلے گئے اور 1994ء تک مدرسے میں تعلیم و تربیت اور امامت میں مصروف رہے۔ اس دوران افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہا۔ 1994ء میں ملامحمد عمر اپنے طالب علموں کو جمع کیا جو بعد میں چل کر طالبان کہلائے۔ ابتداء میں ان کی سرگرمیاں اپنے علاقے میں امن کے قیام اور جرائم کے خاتمے تک محدود رہیں۔ رفتہ رفتہ ان کی اہمیت بڑھتی گئی اور ان کی کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ۔ ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے 1996ءمیں کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی امارات قرار دے کر ملا محمد عمر کو امیرالمومنین کے خطاب سے نوازا۔ جلد ہی طالبان نے افغانستان کے نوے فیصد حصے پر قبضہ کرلیا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا میں حملوں کے بعد امریکا اور اتحادی ملکوں نے افغانستان پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں ملا عمر کی حکومت ختم ہوگئی۔ طالبان امریکا کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ امریکا نے ملا عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی۔ اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد ملا عمر منظر عام پر نہیں آئے البتہ ان سے منسوب پیغامات سامنے آتے رہے۔ ملا محمد عمر کا آخری پیغام 15دن پہلے عید پر سامنے آیا جس میں انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کی تھی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں