کابل (مانیٹرنگ ڈیسک ٗ این این آئی)اہم طالبان رہنما نے اپنے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کے افغانستان میں ہی موجود ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے رائٹرز کو بتایا کہ ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ افغانستان میں ہی موجود ہیں اور وہ جلد عوام کے سامنے آئیں گے۔اس سے قبل ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا تھا کہ ملا
ہیبت اللہ اس وقت قندھار میں موجود ہیں اور وہ کئی عرصے سے وہاں مقیم ہیں۔واضح رہے کہ ہیبت اللہ اخوند زادہ کو2016 میں طالبان کا امیر مقرر کیا گیا تھا جب کہ ان کی اب تک محض ایک تصویر ہی منظرِ عام پر آئی ہے۔مغربی میڈیا نے ان کے حوالے سے یہ قیاس آرائی بھی کی تھی کہ وہ ایک بم حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں تاہم طالبان اس بیان کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔دوسری جانب افغانستان کے مقامی ٹی وی چینل نے کہا ہے کہ افغان صحافی یہ شکایت کر رہے ہیں کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے انھیں مطلوبہ معلومات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ رپورٹنگ کی غرض سے مطلوبہ معلومات کے حصول کے لیے وہ اپنے ذرائع سے رابطہ نہیں کر سکتے اور انھوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ معلومات کے تبادلے کی اجازت دے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان ارکان انھیں کسی بھی واقعے یا جگہ کی تصاویر لینے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔توفیق نامی کابل کے ایک صحافی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے خصوصا کابل آنے کے بعد سے صحافیوں کو معلومات کے ذرائع سے رابطہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے انھیں پریشانی کا سامنا ہے۔ چند دیگر کیسز میں وہ ہماری صحافتی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگاتے ہیں۔ایک اور صحافی عبداللہ کا کہنا تھا کہ صحای تصاویرنہیں کھینچ سکتے، ویڈیو نہیں بنا سکتے، لوگوں کے انٹرویوز نہیں کر سکتے حتی کہ اس میں طالبان کے مجاہدین کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب چند دن قبل کابل ایئرپورٹ پر حملہ ہوا تو کچھ صحافیوں نے جائے وقوع پر جانے کی کوشش کی تاکہ ابتدائی معلومات جمع کی جا سکیں لیکن ہم نے دیکھا کہ طالبان ارکان لوگوں کو وہاں تک جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔تاہم طالبان کا کہنا تھا کہ وہ میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔طالبان کی کلچرل کمیٹی کے نائب سربراہ احمداللہ واثق کا کہنا تھا کہ ہم صحافیوں کو وقت پر معلومات دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔