ماسکو،لندن (این این آئی)روسی حکومت نے کہا ہے کہ طالبان کے شہر میں داخل ہونے کے بعد کابل میں صورتحال بالکل پرسکون ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق افغانستان کے لئے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف کے ایک بیان میں کہا گیا کہ افغانستان میں اقتدار پر طالبان کے کنٹرول کے بعد صورتحال کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس موجود
معلومات کے مطابق دارالحکومت کابل اور افغانستان بھر میں حالات مستحکم ہیں۔ طالبان نے عوامی نظم و نسق کا آغاز کر دیا ہے اور مقامی شہریوں اور غیر ملکی سفارتی مشنوں کے عملے کی سلامتی کی ضمانت دی ہے۔جاری کئے جانے والے اس بیان میں کہا گیا کہ ہم افغانستان کے تمام فریقین سے تشدد سے پرہیز کرنے اور صورتحال کے پر امن حل کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔کابلوف نے روسی سفارت خانے کے کارروائیاں جاری رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں نئے اقتدار کے نمائندوں سے روابط کا آغاز کر دیا گیا ہے۔روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد کابل کی صورتحال مستحکم ہو رہی ہے اور عسکریت پسندوں نے امن عامہ کی صورتحال بحال کرانا شروع کر دی ہے۔دوسری جانب برطانوی وزیر خارجہ نے کابل کا اقتدار سنبھالنے والے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کی پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے۔ انہوں نے مغربی قوتوں پر زور دیا
ہے کہ وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں دہشت گرد قوتوں کو پنپنے نہ دیں۔ڈومینیک راب نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک کو طالبان کے ساتھ تعلقات میں حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہو گا اور افغانستان کے نئے حکمرانوں پر نظر رکھنا ہوگی۔وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ طالبان کے لئے ہمارا پیغام یہی ہے
کہ افغانستان سے مغرب پر دہشت گرد حملے نہیں ہونے چاہئیے ہیں، ہم نے 20 سال محنت کر کے یہ یقینی بنایا ہے کہ مغربی ممالک محفوظ رہ سکیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سفارتی و معاشی پابندیوں سمیت تمام ممکنہ اقدام اٹھانے کو تیار ہیں جن سے ہم طالبان سے اپنی بات منوا سکیں اور میں حقیقت پسند رہتے ہوئے طالبان حکومت پر مثبت اثر ڈالنا چاہتا ہوں۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا طالبان غیر منظم جتھا ہیں؟ راب کا کہنا تھا کہ میں اس نقطہ نظر سے اختلاف نہیں رکھتا مگر اب اقتدار ان کے پاس ہے اور ہمیں اس حقیقت سے نمٹنا ہوگا۔ ہمیں اس امر کو دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ نئی حکومت کو قابو میں کر سکیں گے یا نہیں؟۔