اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگارسہیل وڑائچ اپنے کالم نون کی کنفیوژن میں لکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے انتخابات میں نون لیگ کی شکست نے اُس کے بیانیے کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ نون کے بیانیے کی کنفیوژن نے بالآخر اسے مضمحل کر دیا ہے۔ شروع میں مزاحمتی بیانیہ اور مفاہمتی بیانیہ اسے سوٹ کرتا رہا،
نون لیگ نے پارلیمانی سیاست اور پی ڈی ایم کی سیاست کے لئے مفاہمتی بیانیہ اپنایا اور شہباز شریف اس کے موید و مبلغ بن گئے جبکہ عوامی اور انتخابی سیاست کے لئے احتجاجی بیانیہ اپنایا گیا اور مریم نواز کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔ بیانیوں کا یہ تضاد دو تین برس سے چل رہا تھا اور ووٹر اس کنفیوژن میں مبتلا تھے کہ اصل بیانیہ کون سا ہے؟ میری ناقص رائے میں بیانیوں کے اندر یہ تضاد تھوڑی مدت کے لئے تو چل سکتا ہے اسے لمبی مدت تک چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ نون لیگ کے ساتھ المیہ یہی ہوا ہے کہ اس تضاد نے ووٹر زکو مایوس اور پریشان کیا ہے۔مریم نواز نے مزاحمتی بیانیے کو خوبصورتی سے چلایا، وہ کراؤڈ پلر رہیں، آزاد کشمیر میں ان کے جلسے سب سے بڑے اور متاثر کن تھے مگر مزاحمتی بیانیے کی خامی یہ ہوتی ہے کہ یہ انتخابات جیتنے کی گارنٹی نہیں ہوتا۔ مزاحمتی بیانیہ جذبات کو بھڑکاتا ہے، پارٹی کے اندر مزاحمتی جذبے کو مضبوط کرتا ہے، پارٹی موقف کو مضبوط کرتا ہے مگر اس بیانیے میں ہر صورت فتح حاصل کرنا شامل نہیں ہوتا۔ انتخابی بیانیہ فتح کی امید اور ہر صورت اس کے لئے کوشش پر مبنی ہوتا ہے۔ کافی عرصے سے مریم نواز کی سیاست انتخابی نہیں رہی، وہ صرف مزاحمتی سیاست پر زور دیتی ہیں چنانچہ انتخابی نتائج کا متاثر ہونا ایک فطری بات تھی۔ معروف صحافی نے اپنے کالم میں لکھا کہ
عمران خان کو ایک وزیر نے یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ انتخابات ایک سال پہلے کروا لیں کیونکہ اِس وقت حالات زیادہ سازگار ہیں ممکن ہے کہ پانچ سال بعد حالات اتنے زیادہ سازگار نہ رہیں۔ عدلیہ اور مقتدرہ کا مزاج بدل گیا تو الیکشن کا رنگ بھی بدل جائے گا۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ عمران خان وقت سے پہلے انتخابات کروانے کا سوچیں البتہ اگر پنجاب میں تحریک عدم اعتماد آئی اور تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت غیرمستحکم ہوئی تو
پھر عمران خان انتخابات کروانے میں جلدی کریں گے اور اسمبلیاں توڑ کر میدان میں اترنے کو ترجیح دیں گے۔اب سے سیاست کا رُخ آئندہ الیکشن کی طرف ہوگا، نئی صف بندیاں ہوں گی، نئی منصوبہ بندی ہو گی۔ اگر ن لیگ کو دبانا مقصود ہوا تو ن لیگ کے اندر دراڑیں پڑ سکتی ہیں اور اگر اگلی باری تحریک انصاف کو نہیں ملنی تو پھر تحریک انصاف کے اندر سے ایک نیا باغی گروپ پیدا ہو گا جس کا توڑ کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔