لاہور/اسلام آباد (این این آئی+آن لائن)سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار نے دعویٰ کیا ہے کہ وزارت قانون کی جانب سے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بیان دینے کے لیے دباؤڈالا گیا، مطالبہ نہ ماننے پر بار کی گرانٹ کم کردی گئی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سیکریٹری لاہورہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن خواجہ محسن عباس نے کہا دباؤ ڈالا گیا
کہ بار کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف قرارداد منظور کریں۔خواجہ محسن عباس نے کہا کہ انہیں وزارت قانون کی جانب سے بالواسطہ اور بلا واسطہ کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بیان دیں گے تو گرانٹ ملے گی۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر بار نے وزارت قانون پر واضح کردیا کہ ہم بلیک میل نہیں ہوں گے۔سیکریٹری لاہور ہائیکورٹ بار کا کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بیان دینے سے انکار پر بار کو 40 لاکھ روپے کی گرانٹ کا چیک دیا جا رہا تھا، جسے لینے سے ہم نے انکار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ 43 ہزار ممبران کے لیے بار کو اس سے پہلے کروڑوں میں گرانٹ ملا کرتی تھی۔اس الزام پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ محسن عباس کے عائد کردہ الزامات بے بنیاد اور لغو ہیں۔انہوں نے کہا کہ بار کو گرانٹس غیر مشروط طور پر برابری کی بنیاد پر دی جاتی، بار کو دی جانے والی گرانٹس میں کسی قسم کا کوئی سیاسی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ حکومت قانون کی حکمرانی کے لئے پرعزم ہے،بارکونسلز سمیت ہر ایک کو قانون کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،داد رسی قانون بنانے سے نہیں بلکہ قانون پر موثرعملدرآمد سے ہی ممکن ہے،عصمت دری کے خلاف بنائے گئے پاکستان کے
قانون کو پوری دنیا سراہتی ہے،مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کا خمیازہ کئی نسلیں بھگتی ہیں۔وہ اتوار کو یہاں وزارت قانون میں بار ایسوسی ایشنز میں چیکس کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے بھی خطاب کیا جبکہ وزیر مملکت علی محمد خان،
پارلیمانی سیکرٹری قانونی ملیکہ بخاری اور دیگر بھی موجود تھے۔ وزیر قانون سید فروغ نسیم نے خطاب کرتے ہوئے راولپنڈی بار سمیت دیگر بار ایسوسی ایشنز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کا نیا پاکستان کہاںہے تو اس کی واضح مثال دن رات کام کرنے والے علی محمد خان، فرخ حبیب، ملیکہ بخاری اور
دیگر نوجوان ٹیم ہے، یہ نئے پاکستان کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ہے، یہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے لوگ نیا پاکستان ہیں جو پاکستان کیلئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت قانون کے دروازے بار کونسلز سمیت ہر ایک کیلئے ہر وقت کھلے ہیں، یہاں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں، کسی سیاسی جماعت سے وابستگی، کوئی زبان
بولنے والے کی تفریق نہیں، صرف پاکستانی ہونے کی شرط ہے اور یہ بھی کہ وہ کسی غلط کام میں ملوث نہ ہوں، رنگ، نسل، زبان اور مذہب کا اس سے کوئی تعلق نہیں، نہ قائداعظم نہ عمران خان اور نہ ہی آئین کیلئے یہ متعلقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا بلکہ ایسا کام کرنا ہے جس سے
پاکستان کے لوگوں کی داد رسی ہو، عوام کی داد رسی صرف قانون بنانے سے نہیں بلکہ اس پر موثر عمل درآمد سے ہو گی، قانون پر عمل درآمد کیلئے بار اور بینچ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت کے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے ہیں، وہ اصلاح کیلئے یہاں آئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مقدمات میں غیر
ضروری تاخیر ہوتی ہے، 20,20 سال کیسوں کے فیصلے نہیں ہوتے اور یہ کیس کئی پشتوں تک جاتے ہیں، جرم ثابت ہوتے ہوتے کئی معصوم اور بے گناہ لوگ 20,20 اور 25.25 سال ان کیسوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں جس میں امیر اور غریب کیلئے
الگ الگ قانون نہیں بلکہ ہر ایک کیلئے مساوی انصاف ہو، قانون کی حکمرانی ہو، آئین کی پاسداری ہو، یہی قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کا خواب تھا، ہمیں اس پر سمجھوتہ نہیں کرنا۔ انہوں نے کہا کہ قوانین کے موثر نفاذ سے ہی داد رسی ہو سکتی ہے، ہم نے قرآن، حدیث اور دستور کے مطابق اپنا کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا
کہ عصمت دری کے خلاف پاکستان نے جو قانون بنایا اس کو پوری دنیا سراہتی ہے، پوری دنیا کے قوانین کا موازنہ کر کے ہم نے یہ قانون تیار کیا تاہم اس پر عمل درآمد اصل مسئلہ ہے، اس کیلئے بار بینچ سمیت ہر ایک نے اپنا کردار ادا کرنا ہے، بار اور بینچ کی طرف سے نفسیاتی دباؤ کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔ انہوں نے بار ایسوسی ایشنز سے کہا کہ وہ آگے آئیں اور رہنمائی کریں کہ عوام کی داد رسی کیسے ہو گی۔ اس موقع پر انہوں نے بار کونسلز کے عہدیداران میں چیکس بھی تقسیم کئے۔