اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک/آن لائن)قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے کہا ہے میدان جنگ میں گھوڑے اور موذی بیماریوں میں ڈاکٹرز تبدیل نہیں ہوتے۔ لندن کرکٹ کا میچ دیکھنے یا جادو ٹونا سیکھنے نہیں جارہا تھا۔ میں خطرناک کینسر کا مریض رہ چکا ہوں 2003سے لندن میںریگولر چیک اپ ہوتا ہے چیک اپ کروانے جانا صحت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت ہمارا راستہ نہیں ہے،
قومی مفاہمت کے لیے نواز شریف سے بات کروں گا۔ مجھے ان کے پاؤں بھی پکڑنے پڑے تو یہ کروں گا۔دوسری جانب اپوزیشن لیڈرشہبازشریف اور سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن کے مابین جمعہ کو ملاقات ہوئی ہے، شہبازشریف کا کہناہے اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں متحد ہو جائیں تو حکومت بجٹ پاس نہیں کروا سکتی،ہمیں تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھانا چاہیے، نیازی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اپوزیشن کا متحد رہنا ناگزیر ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے ،ان نااہلوں کو اب سہارا دینا جرم ہے اس پر سب کو نظر ثانی کرنی چاہیے، چاہے وہ ادارے ہیں، جماعتیں ہیں یا عوام ہیں ،اداروں کو قومی دھارے اور اصلاح کرنا تھا مگر یکدم توڑ پھوڑ پیدا کرکے بدنیتی ظاہر ہوچکی ہے وقف املاک بورڈ پاکستان کے آئین اور بنیادی حقوق کی نفی ہے۔۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ملاقات کی ،ملاقات کے دورا ن دونوں جماعتوں کے سینئر رہنماء بھی موجود تھے جس میں ملکی سیاسی صورتحال اور بجٹ اجلاس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔میاں شہبازشریف نے قائد ن لیگ نواز شریف کا پیغام بھی پہنچایا۔ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی واپسی سے متعلق بھی شہبازشریف کی تجاویز پر بات چیت کی گئی ۔ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور اے این پی بارے شہبازشریف کی رائے (آج) ہفتہ کو ہونیوالے سربراہی اجلاس میں رکھی جائے گی۔مولانا فضل الرحمان نے دونوں جماعتوں بارے پی ڈی ایم کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔اس موقع پر شہبازشریف نے بڑا دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں متحد ہو جائیں تو حکومت بجٹ پاس نہیں کروا سکتی،
ہمیں تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھانا چاہیے، نیازی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اپوزیشن کا متحد رہنا ناگزیر ہے۔انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن جماعتوں کا آپس میں تعاون ناگزیر ہے،ہم بجٹ منظوری رکوا سکتے ہیں یہ حکومت کی ناکامی ہوگی۔میں اور میرے سینئر ممبران مولانا فضل الرحمان کی دعوت پر حاضر ہوئے تھے ،مولانا فضل الرحمان کی دعوت انتہائی پرتکلف اور ہمیشہ کی طرح لذیذ تھا ،چند روز پہلے ان صحت یابی کے لیے حاضر ہوا تھا کل پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوگا ،کل کے اجلاس میں ملکی صورتحال اور بجٹ کی صورتحال پر غور ہوگا ،افغانستان کی صورتحال پر بھی کل
گفتگو ہوگی امریکی افواج کے انخلائ کے بعد پڑوسی ملک میں امن چاہتے ہیں ۔آج ہفتہ کو پی ڈی ایم کا اجلاس ہے ، تمام ممبر پارٹی موجود ہونگی، وہاں پی پی , اے این پی کا فیصلہ ہوگا ،یہ ایک فورم ہے یہان مشاورت اور متفقہ طور پر فیصلے ہوتے ہیں میری ذاتی کوئی رائے نہیں ہے ،سینیٹ اور قومی اسمبلی کے پارلیمانی لیڈرز کو مدعو کیا گیا تھا تمام اپوزیشن لیڈر کے طور پر سب کو مدعو کیا تھاکووڈ کی تیسری لہر جاری ہے مگر ڈیڑھ سال کے عرصے میں حکومت نے کیا اقدام کیا ،کیا اس سے زیادہ کوئی مجرمانہ غفلت ہوسکتی ہے ؟ ہم نے صرف امداد میں ملنے والے ٹیکوں پر اکتفا کیا ہے ۔شہبازشریف نے کہاکہ چینی، گندم اور سبسڈیز میں کرپشن کا پیسہ ضائع کیا گیا کاش اس پیسے کو یہاں خرچ کیا جاتا ،ریاست مدینہ کا
دن رات تذکرہ ہوتا ہے مگر عمل کچھ بھی نہیں، اگر درد دل ہوتا تو ملک کے کونے کونے میں یہ وزیراعظم جاتے ،خودنمائی کی بات نہیں کرنا چاہتا، لیڈر نواز شریف کے ساتھ ڈینگی کے موقع پر ہم نے گھر گھر سپرے کرایا۔اس موقع پر پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ پاکستان میں مرض آتے ہیں علاج کے انتظامات نہیں ،نا اہلوں کو سہارا دینا اور بھی زیادتی ہے،جگہ جگہ حملے ہو رہے ہیں اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے،دینی مدارس میں نقب لگائی گئی ،اداروں کی اصلاح اور قومی دھارے میں لانے کی
ضرورت تھی۔انہوں نے کہاکہ وقف املاک قانون آئین اور شریعت کے منافی ہے،اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے ۔انہوں نے کہاکہ بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن کشمیر پر سودا نہیں کرنا چاہیے ،ہم فاٹا میں تبدیلی لائے اب وہاں کوئی نظام نہیں۔میں میاں شہباز شریف کا شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لائے ،یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے ،ان نااہلوں کو اب سہارا دینا جرم ہے اس پر سب کو نظر ثانی کرنی چاہیے، چاہے وہ ادارے ہیں، جماعتیں ہیں یا عوام ہیں ،اداروں کو قومی دھارے
اور اصلاح کرنا تھا مگر یکدم توڑ پھوڑ پیدا کرکے بدنیتی ظاہر ہوچکی ہے وقف املاک بورڈ پاکستان کے آئین اور بنیادی حقوق کی نفی ہے اسے نظریاتی کونسل میں بھجوانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ داخلہ طور پر قدم قدم پر ابہام پیدا کیا جارہا ہے دوسری طرف خطے کی صورتحال بدل رہی ہے ،کشمیر پر سودا کرکے ہم تعلقات بہتر کرسکتے تھے مگر قوم کو بیچ کر اس مسئلے پر بات کریں گے؟ فاٹا میں عوام کو کیا کیا سبز باغ دکھائے گئے مگر عملاً کوئی اقدام ہی نہیں ہورہا ہے ،
آج خرابیوں کو دور کرنے کے لئے نئے نئے آرڈیننس لائے جارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہناتھا افغانستان میں امریکہ شکست کھا چکا ہے مگر اب وہ پاکستان میں بیٹھنا چاہتے ہیں ۔ اگر بلوچستان میں اڈے دیئے گئے تو پھر ایران، افغانستان اور چین کا اعتماد کھو بیٹھیں گے ۔ان حکمرانوں کو وزارت خارجہ اصولوں بارے علم تک نہیں ہے ۔جی ڈی پی گروتھ میں صرف جھوٹ بولا جائے گا ہماری معیشت بہتر نہیں ہورہی ہے ۔کیا صرف بہار آنے سے سردی اور گرمی ختم ہو جائے گی ۔جو چیزیں ہم متفقہ طے کریں چاہے وہ مزاحمت کی ہو یا مفاہمت کی، وہ متفقہ ہوتی ہے ۔جب ساری جماعتیں ایک موقف دے رہی ہیں تو آپ الگ موقف لے رہے ہیں کیا آپ زیادہ عقلمند ہیں۔