اسلام آباد (این این آئی)پی ڈی ایم کے سکرٹری اطلاعات حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرنا آسمان کی طرف تھوکنے کی مترادف ہے، جو تھوکنے والے کے چھرے پر واپس آکر گریگی،حالیہ سینٹ الیکشن میں یوسف رضاگیلانی کو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ووٹوں سے سنیٹر منتخب کرایا گیا اور چیئرمین سینٹ بنوانے کیلئے بھی مولانا اور اپوزیشن جماعتوں سے
ووٹ لیا گیا، اس کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے ہی سنیٹرز سے بیلٹ پیپر پر غلط مہر لگواکر اور باپ پارٹی سے خفیہ طور پر مل کر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ منتخب کروایا۔ اپنے بیان میں انہوںنے کہاکہ پیپلز پارٹی نے نہ صرف اپوزیشن کو بلکہ گیلانی کو بھی دھوکہ دیا، اس کے علاوہ پیپلز پارٹی نے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں ووٹ نہ دیکر مولانا حیدری کو سازش کے تحت ہرواکر حکومتی امیدوار کو کامیاب کروایا اور منافقت کایہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بے چارے یوسف رضا گیلانی کو ایک بار پھر شرمندہ کرکے باپ پارٹی کے سپرد کردیالہذا پیپلزپارٹی بیک وقت تین قوتو ں پی ٹی آئی، باپ پارٹی اور خلائی مخلوق کے نکاح میں چلی گئی پیپلز پارٹی میں اب بھٹو ازم نہیں رہا، اب بچہ زرداری پاٹی بن چکی ہے،اب پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کی بی ٹیم بن چکی ہے، اور ساتھ ساتھ باپ پارٹی کو سیاسی باپ بناکر بھٹو اور بے نظیر شہید کی روح کو تکلف پہنچائی ہے، پیپلز پارٹی کو نیا سیاسی باپ مبارک ہو۔ انہوںنے کہاکہ مولانافضل الرحمان کے بارے میں زبان صحیح استعمال کی جائے، ورنہ بات بہت دور تک جائیگی۔حافظ حمد اللہ نے کہا کہ فیصل کریم کنڈی مولانا فضل الرحمن پرتنقید کرنے سے اپنا سیاسی قد بڑھانے کی ناکام کوشش نہ کریں،جتنا سیاسی قد ہے، بات بھی اتنی ہی کرنی چاہئے، کسی کو سیاسی قد بڑھانا ہے تو کوئی اور چورن بیچنی پڑیگی۔ انہوںنے کہاکہ جے یو آئی اور مسلم لیگ ن پی ڈی ایم کا حصہ ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ پی پی عملا ًپی ٹی آئی میں بریکٹ نظر آرہی ہے پی پی کہاں کھڑی ہے اس پر انہیں نظرثانی کرنی چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے مد نظر این اے 249 پر پی پی کی کامیابی اہم نہیں پی ٹی آئی کی شکست اہم ہے،جہاں تک مفتی محمود رح کی سیاست کا تعلق ہے تو انہوں نے مرتے دم تک ہمیشہ آمریت اور ماشل لاء کے خلاف آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کی سیاست کی، مولانا بھی مفتی صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی جمہوری ریاست پاکستان کے قیام کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، آج بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک غیرجمہوری کٹھ پتلی حکومت کے خلاف میدان میں برسر پیکارہیں لہذا انانیت اور خودپسندی کی چشمے اتارکر حقیقی نگاہ سے چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ 2018 میں رضاربانی جیسے جیالے کو نظرانداز کرکہ صادق سنجرانی کوسینٹ چیرمین منتخب کروایا گیا، میرا سوال ہے کہ کیا یہ ہے بھٹو ازم؟ مارچ میں سرکاری پارٹیوں کے ساتھ اندرون خانہ مل کر پی ڈی ایم کے متفقہ امیدواروں یوسف رضاگیلانی اور مولانا حیدری کوہروایا گیا، اور سرکاری پارٹیوں کے چیرمین سینٹ اور ڈپٹی چیرمین کوجتوایا گیا، کیا یہ ہے بھٹو ازم؟ پھر باپ پارٹی کے ووٹوں سے یوسف رضاگیلانی کواپوزیشن لیڈر بنوایا گیا، کیایہ ہے بھٹو ازم؟ پیپلز پارٹی اپنی سیاست پر ذرا غور تو کرے؟ آپ کے اپنے جیالے بھی آپ کی سیاست پرہنس رہے ہیں۔