اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نیو اسلام آباد ایئرپورٹ منصوبے میں مبینہ کرپشن، وزیراعظم نے انکوائری رپورٹ مسترد کردی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایئرپورٹ کی تعمیر میں کسی بھی مالی بدعنوانی کے ثبوت نہیں ملے، تاخیر کمزور مانیٹرنگ کی وجہ سے ہوئی۔روزنامہ جنگ میں
زاہد گشکوری کی شائع خبرکے مطابق،وزیراعظم عمران خان نے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر کے حوالے سے انکوائری رپورٹ مسترد کردی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این آئی آئی اے پی کی تعمیر میں کسی بھی مالی بدعنوانی کے ثبوت نہیں ملے۔وزیراعظم عمران خان نے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ سے متعلق تمام مسائل کے حل کے لیے ایک اعلی سطحی کمیٹی وزیر ایوی ایشن ڈویژن کی سربراہی میں تشکیل دی تھی۔ جس نے وزیراعظم آفس میں اپنا رپورٹ گزشتہ برس جمع کروائی تھی۔ قومی اسمبلی میں گزشتہ ہفتے وزیر ایوی ایشن ڈویژن کے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم آفس کو رپورٹ پر کچھ اعتراضات تھے جنہیںاب ختم کردیا گیا ہے اور نظرثانی شدہ رپورٹ مذکورہ کمیٹی تیار کرچکی ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب فوج کے چار ریٹائرڈ برگیڈیئرز نے انکوائری کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔ قومی اسمبلی میں گزشتہ ہفتے غلام سرور خان کی جانب سے جمع کروائے
گئے تحریری جواب میں کہا گیا کہ جن چار ریٹائرڈ فوجی افسران نے الزامات پر جواب نہیں دیئے ان میں آئی آئی اے پی کے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایم توصیف الزماں، سابق پروجیکٹ ڈائریکٹرز آئی آئی اے پی بریگیڈیئر ریٹائرڈ افتخار علی، بریگیڈیئر ریٹائرڈ بلال حمید
اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ مشتاق احمد شامل ہیں۔وفاقی حکومت کی ہدایت پر تیار کی جانے والی نئی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر مالی بدعنوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزور مانیٹرنگ کی وجہ سے ہوئی۔ ایوی ایشن ڈویژن
نے یہ جواب ایم این اے سید آغا رفیع اللہ کے تحریری سوال پر دیا تھا جس میں این آئی آئی اے پی کی تعمیر اور اس کے ناقص آپریشنز پر مبینہ کرپشن کے حوالے سے جاری تحقیقات پر وضاحت طلب کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل
ریٹائرڈ شاہد نیاز کمیٹی رپورٹ اور ایف آئی اے کی جانب سے کی گئی انکوائری کی جانچ پڑتال کے لیے جائزہ کمیٹی تشکیل دے۔ وزیر ایوی ایشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ذمہ دار افراد کے خلاف جزول اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ تحقیقات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد نیاز اور اس وقت کے
ڈی جی، ایف آئی اے غالب بندیشا نے کی تھیں۔دونوں کمیٹیوں کی رپورٹ میں کہا گیا کہ تاخیر کی وجہ اضافی پیکجز اور کام تھے جو اصل پی سی۔1 میں شامل نہیں تھے۔ جس پر ایک خصوسی جائزہ کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کی سربراہی انجینئر شمس الملک کررہے تھے۔ اس رپورٹ میں
کمزور مانیٹرنگ کنٹرول کو تاخیر کا سبب اور اخراجات میں اضافے کی وجہ قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پروجیکٹ بغیر کسی مہارت اور طریقہ کار کے 17 پیکیجز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ناکافی پی سی ۔1 تاخیر اور اضافی اخراجات کی بنیادی وجوہات بنے۔ شمس الملک
رپورٹ کی سفارشات کے مطابق، سی اے اے نے اپنے ریگولر / کانٹریکٹ افسران کے خلاف اپنی قانونی کنسلٹنٹس کی مشاورت سے ضروری کارروائی کی۔ وزیر ایوی ایشن ڈویژن نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہے۔ سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر
این آئی آئی اے پی ، انجینئر وکرم سنگھ سودھا کو او ایس ڈی بنادیا گیا، اسی طرح سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر پروجیکٹس انجینئر رضوان احمد خان کی تنزلی کرتے ہوئے ای جی۔07 سے ای جی۔06 دوسال کے لیے کردیا گیا۔ اسی طرح انجینئر مشرف خان جو کہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں کو بھی سزا
دی گئی اور اس کے علاوہ دیگر ملازمین کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔ ان ملازمین میں صلاح الدین ارشد، سابق ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی، انجینئر یوسف کمال ، سابق ڈائریکٹر ورکس اینڈ ڈیو، اسکواڈرن لیڈر ریٹائرڈ احسن ملک، سابق ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی، انجینئر محمد روح اللہ، سابق
ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی، مبشر ظفر، صابق ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی اور آصف بشیر احمد ، سابق ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی شامل ہیں۔ اگست، 2018 میں وزارت داخلہ نے سینیٹ کا آگاہ کیا تھا کہ این آئی آئی اے پی سے متعلق تحقیقات میں تین درجن کے قریب ملزمان سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کے متعلقہ حکام سے بارہا رابطہ کیا اور انکوائری سے متعلق پیش رفت سے آگاہی چاہی۔ تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔