اسلام آباد(آن لائن)ایوان بالا میں عربی زبان کو لازمی قرار دینے کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا،پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے مذکورہ بل کو عربی کلچر میں تبدیل کی کوشش قرار دیا،علاوہ ازیں سینیٹر سراج الحق نے بل کو متفقہ پاس کرنے کے قدم کو تبدیلی کی جانب پہلا قدم قرار دیا،حکومت نے بھی دل کھول کر
حمایت کر کے تاریخی بل پاس کر دیا۔ عربی کو سمجھنے کے لیے لازمی قرار دینے سے متعلق بل پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اس سے قبل قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پاس ہوئی تھی کہ ملک کی کوئی بھی یونیورسٹی اس وقت تک بچے کو ڈگری نہ دے تاکہ یہ نہ جان لے کہ بچے کو بنیادی دینی تعلیم دیدی گئی ہے،اہل زبان فرماتے ہیں کہ جب تک عربی کو نہ سمجھا جائے تو اس وقت ہم عربی میں احکامات کو صحیح سمجھ ہی نہیں سکتے،یہ ایک اچھا قانون ہے کہ عربی قران پاک کو سمجھنے میں لازم و ملزوم ہے اور ایوان بالا میں سینیٹر جاوید عباسی کے بل کو حکومت حمایت کرتی ہے،دوسری جانب سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ اس بل کی ووٹ کی حد تک مخالفت کر سکتا ہوں،ہم مسلمان ہیں اور اس کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت ہے،ریاست پاکستان کی پہلے دن سے کوشش رہی ہے اور ملک میں ملٹی کلچرل ملک ہے اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ آرٹیفیشل کلچر سامنے لایا جائے،اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ ایک عرب کلچر کو ملک میں مسلط کرے،میرا کلچر یہ نہیں ہے،جب تک ہم اپنے کلچر کو پروان نہیں چڑھائیں گے اس وقت تک ہم ایسے بھٹکے رہیں گے،سندھی،بلوچی،پستو،پنجابی اور سرائیکی کے لیے جو میری شناخت ہیں،رضا ربانی نے کہا کہ عربی زبان کا
میرے مذہب کے ساتھ اتنا تعلق ضرور ہے کہ قران حکیم عربی میں اترا،اور میں واضع کر دوں کہ عرب کلچر میرا کلچر نہیں ہے،مجھے اپنے کلچر میں پنپنے دیں،سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ میرے اللہ پاک نے جس زبان میں قران اتارا وہ لینگوئج عربی بہت بڑی ہے،25ممالک کی آفیشل زبان ہے،بل کا مفہوم یہی ہے کہ عربی کو بطور سبق
پڑھائیں اور عربی کو سمجھ گئے تو پر قران پاک کو سمجھ جائیں گے،سینیٹر مشتاق نے کہا کہ قران چھوڑنے سے ہم ذلیل و خوار ہو گئے،جاوید عباسی کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ اس بل کی حمایت کرتا ہوں،انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جب آئین بنا یا تھا کہ تو اس وقت کھل کر بتایا ہے کہ ریاست کی ذمہ
داری ہو گی کہ قران پاک سکھانے کے لیے اس پر اقدامات اٹھائے،سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ حضور پاک نے فرمایا کہ جنت میں جانیوالے افراد کی زبان بھی عربی میں ہو گی،یہاں سینیٹر رحمن ملک موجود ہیں انکے پاس اتنی ڈگریاں جو کہ گن نہیں سکتے،لیکن چھوٹی سی سورتہ ہی غلط پڑھ گئے،رحمن ملک نے کہا کہ آج پھر میں
پڑھ کر سناتاہوں،تو اس پر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ آج بھی آپ غلط پڑھیں گے،اس پر ایوان میں قہقہ لگ گیا،دیکھنا یہ ہے کہ قران پاک اللہ پاک نے ہم مسلمانوں کے لیے اتارا اور ہم اس زبان کو سمجھنے سے قاصر ہیں،سینٹ میں جو لکھا گیا کہ اخراج،اس کا معنی ہے کہ نکالنا،یہاں خروج ہونا چاہیے تھے،سینیٹر رحمن ملک نے
کہا کہ اسلام ہمیشہ یہی کہتا رہا ہے کہ آج جس طرح ہمارے علماء نے میری تذلیل کرنے کی کوشش کی ہے،اخراج ٹھیک لفظ ہے خروج کہتے ہیں نکالنے کو،میں باور کراتا چلوں کہ مجھے ایک نہیں کئی بار طعنے مارے گئے ایک بار میٹنگ میں مجھ سے تلاوت بھی کرائی گئی اور الحمداللہ بہترین تلاوت کی ہے،یہ بل قابل ستائش ہے اور اس کو
پاس ہونا چاہیے،وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ سینیٹر جاوید عباسی جو بل لائے ہیں وہ قابل ستائش ہے،لیکن قانون میں موجود ہے کہ سب سے پہلے جس طرح اپنی زبان کی حفاظت کریں گے،اس موقع پر علی محمد خان نے پشتو میں اشعار پڑھنا شروع کر دیے ہیں،ایوان کو ساکن کرا دیا،دعویٰ اٹل ہے کہ قران سمجھ آ گیا تو پھر
دہشت گردی ختم ہو جائے گی،سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ عربی جنت کی زبان ہے اور اس کو سمجھ اور جان کر ایک امتی بن سکتے ہیں،پرائمری اور ہائی سکولز میں انگریزی کو لازمی سمجھا گیا ہے اور عربی کو ہی لازمی کردیا جائے،جب اپنے کلمہ کو ہی نہ سمجھ سکیں تو ہم برائے نام تو مسلمان تو ہونگے لیکن سمجھنے اور سوچنے والے نہیں،علاقائی زبانوں کا احترام کرتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ عربی زبان کو لازمی زبان بنا دیں،تاہم عربی بل کو ایوان میں پیش کر کے متفقہ منظوری کر لیا گیا۔