اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے دیگر آپشنز کے مقابلے عدم اعتماد کی تحریک کو ترجیح دینے کی تجویز پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دو دیگر اہم اجزا کی جانب سے کبھی بھی موثر جواب نہیں ملا۔ روزنامہ جنگ
میں طارق بٹ کی شائع خبر کے مطابق کثیر جماعتی حزب اختلاف کے سینئر رہنما نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام ( ف) نے پی ڈی ایم کے مختلف اجلاسوں کے دوران اس خیال کی ہمیشہ سے مخالفت کی ہے اور اسے ناقابل عمل، ناقابل حصول اور نان اسٹارٹر قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے مباحثے میں یہ تجویز ایک سے زیادہ بار زیر بحث آئی ہے اور ہر مرتبہ پی پی پی نے اس کی اہمیت پر زور دیا جبکہ پی ایم ایل این اور جے یو آئی ف نے اسے قبول نہیں کیا۔ اب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن جماعتوں سے عوامی سطح پر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ PDM میں ایسی ہی ایک بحث کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ اگر، سینیٹ میں واضح اکثریت کے باوجود ، حزب اختلاف ہر ایک کو معلوم وجوہات کیلئے اس کے چیئرمین کو ہٹانے میں ناکام رہی تو یہ موجودہ ماحول میں کیسے کامیاب
ہوسکتی ہے جب ہمارے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں۔حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے جے یو آئی ف لانگ مارچ اور پی ڈی ایم قانون سازوں کے اسمبلیوں سے استعفوں جیسی فیصلہ کن ضرب پر زور دے رہی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی کو بعض
عناصر نے باور کرایا ہے کہ حکومت سے چھٹکارا پانے کے لئے PDM جو کچھ کرنا چاہتی ہے اسے اسمبلیوں کے اندر ہی کرنا چاہئے اور قانون سازوں کو ہلانے کے لئے کام نہیں کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر نہیں چاہتے کہ اسمبلیاں کام چھوڑ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقل بنیادوں پر PDM مشاورت کے دوران پیپلز پارٹی کو اشارہ کیا گیا تھا کہ عدم اعتماد کی ناکامی جس کے روشن امکانات ہیں حکومت کو مضبوط اور مستحکم بنائیں گے۔ اس کی وضاحت کی گئی تھی کہ اس طرح کی صورتحال اپوزیشن کو کمزور کردے گی۔ آئین اور
قواعد کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد کے اسپانسرز کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کی کامیابی کے لئے اسمبلی میں سادہ اکثریت پیدا کریں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی کوششوں کو سرکاری مشینری کا استعمال کرکے آسانی سے ناکام بنایا جاسکتا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں
کبھی بھی جابرانہ اقدامات کے استعمال کی وجہ سے ایسی تحریک کامیاب نہیں ہوسکی۔ ذرائع کا اندازہ ہے کہ شاید پیپلز پارٹی عدم اعتماد کی قرارداد کے ذریعے لوگوں کی رائے معلوم کرنا چاہتی ہے اور یہ جاننا چاہتی ہے کہ عمران خان کتنی دور تک اپنی پارٹی ، اتحادیوں اور دیگر کی
حمایت سے لطف اٹھاتے ہیں۔ اگر پاکستان کا ماضی کوئی رہنما ہے تو کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ آرٹیکل 95 کے تحت قومی اسمبلی کی کل رکنیت میں سے جو بیس فیصد سے کم نہ ہوں کے ذریعہ پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد
قومی اسمبلی کے ذریعہ وزیراعظم کے خلاف منظور کی جاسکتی ہے۔ عددی منظر نامے کے مطابق پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی (ایم این اے)کے 55 ارکان ہیں جو تحریک عدم اعتماد کو آگے بڑھانے کے لئے بھی کافی نہیں ہیں۔ اس طرح کی قرار داد پیش کرنے کیلئے کم از کم
انسٹھ ایم پیز (20 فیصد) کی ضرورت ہوگی۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن (83) اور جے یو آئی ف (15) کے کل 98 ایم این ایز ہیں۔ تحریک کی تیاری اور اسے پیش کرنے اور اس پر ووٹ ڈالنے کے درمیان حکومت کے پاس اپنی ہی جماعت یا حلیف جماعتوں سے مشتبہ منحرف افراد کو اپنے ارادے چھوڑ دینے کیلئے راضی کرتے ہوئے اسے شکست دینے کیلئے ترکیب لڑانے اور اقدامات کرنے کیلئے بہت وقت ہے۔