اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے اٹلی ایمبیسی میں کام کرنے والی خاتون کے ساتھ مبینہ فراڈ کے ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری منظورکرتے ہوئے ملزم چوہدری آصف کو پولیس تفتیش میں شامل ہونے کا حکم دیدیا۔گذشتہ روز درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت کے دوران متاثرہ خاتون کے وکیل نے کہاکہ2013 میں مجھے
میرے موبائل پر کال آئی اور کہا میں کرنل ابرار کا سٹاف افسر ہوں،خاتون کو 26 نمبر چونگی بلا کر ویری فیکیشن کا کہا گیا اور ملزم نے دو لاکھ روپے لیے، مختلف اوقات میں ملزم چوہدری آصف نے خاتون سے 75 لاکھ سے زائد کی رقم لی،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ تفتیشی افسر صاحب آپ نے اب تک کیا تفتیش کی ہے،جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایاکہ ملزم عبوری ضمانت کے بعد شامل تفتیش ہی نہیں ہوا،عدالت نے استفسار کیاکہ 75 لاکھ روپے کسی سرکاری ملازم کو کوئی کیوں دیگا،تفتیشی افسر نے کہاکہ ملزم نے خود کو سرکاری افسر بتایا اور خاتون نے رقم دیدی،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بھی سرکاری ملازم ہیں کسی پارٹی سے 75 لاکھ روپے لیں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیسا کیس ہے کیسی باتیں کر رہے ہیں،ایک سرکاری افسر کسی سے پیسے مانگے تو وہ جرم ہے،درخواست میں یہ ہی نہیں لکھا گیا کہ کس مقصد کیلئے رقم دی گئی،تفتیشی افسر کو دیکھنا چاہیے تھا کہ رقم کیوں دی گئی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیاکہ 2013 میں انہوں نے 2 لاکھ روپے کی رقم کیوں دی،متاثرہ خاتون کے وکیل نے بتایاکہ ویری فکیشن کیلئے خاتون سے رقم لی گئی،چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری ملازم اگر کسی سے رقم کا مطالبہ کرے تو اسکی تو شکایت کی جانی چاہیے،75 لاکھ روپے کوئی کسی کو دیتا ہے، تفتیشی افسر نے کہاکہ چوہدری آصف خود مان رہا ہے کہ مجھے مختلف اوقات میں رقم دی گئی،وکیل نے کہاکہ مکان کی خریداری کیلئے چوہدری آصف کو رقم دی گئی،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو دو فریقین کے درمیان کا معاملہ ہے اس میں فوجداری کیس کہاں سے آ گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ چوہدری آصف کس محکمے میں کام کرتا ہے،وکیل نے بتایاکہ وہ ایک پرائیویٹ بندہ ہے کسی محکمے میں کام نہیں کرتا، تفتیشی افسر نے کہاکہ چوہدری آصف نے کہا کہ میں 20 لاکھ روپے کی رقم دونگا،خاتون پوری رقم کا مطالبہ کر رہی ہیں،دلائل سننے کے بعد عدالت نے مذکورہ بالا ہدایات جاری کردی۔