اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پچھلے تین چار دن میں کچھ بہت ہی اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہیں۔ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے انٹرویو کے بعد کچھ حکومتی وزراء بہت خوش تھے اور دعوے شروع کر دیے گئے تھے کہ بہت جلد پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے نکل جائے گی، بلاول بھٹو کے انٹرویو پر مریم نواز شریف صاحبہ نے
صفائی پیش کی، مریم نواز کی جانب سے صفائی پیش کرنے کے بعد آصف زردار ی اور نواز شریف کا آپس میں رابطہ ہوا اور اہم معاملات پر بھی بات چیت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں نواز شریف اور آصف زرداری شریک ہوئے، آج کے اجلاس میں آصف زرداری کافی ایکٹو نظر آئے کیونکہ پچھلے جتنے اجلاس ہوئے ان میں نواز شریف کافی ایکٹو نظر آئے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے آج کے اجلاس میں آصف علی زرداری کافی ایکٹو نظر آئے، آصف زرداری نے اجلاس میں تجویز پیش کی کہ حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کیسے بڑھایا جائے، گزشتہ روز میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے مابین ہونیوالی گفتگو میں یہی طے پایا تھا کہ حکومت پر دباؤ کیسے بڑھایا جائے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے بیانیے پر مکمل طور پر متفق ہیں البتہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے نواز شریف کی کچھ اپنی تجاویز ہیں جبکہ آصف زرداری کی اپنی تجاویز ہیں۔ آج کے اجلاس میں آصف زرداری کی تجویز پر نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا اس پر ہم ایک اور اجلاس بلائیں گے تاکہ سب سے مشاورت کے بعد کوئی لائحہ عمل لایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی سڑک اور سٹریٹ کی سیاست میں بھی مسلم لیگ ن کیساتھ کھڑی ہو گی لیکن وہ چاہتی ہے کہ ساتھ ہی
ساتھ پارلیمنٹ کے اندر بھی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے۔ آج جو آصف زرداری نے تجاویز پیش کی ہیں وہ بہت ٹھوس ہیں جب ان پر عمل ہو جائے گا تو مولانا فضل الرحمان اس کا اعلان کریں گے۔ سینئر اینکر پرسن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ آپ سڑکوں پر جلسے جلوس اور لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت پر صرف دو چیزوں کا
پریشر بڑھایا جائے، صرف اسلام آباد پر پریشر نہ بڑھایا جائے بلکہ لاہور اور کوئٹہ پر بھی پریشر بڑھایا جائے کیونکہ لاہور اور کوئٹہ میں وزیراعظم عمران خان کے اتحادی حکومت کر رہے ہیں، وہاں پر بھی پریشر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سینئر اینکر پرسن حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اور راجہ پرویز اشرف نے یہ بات کی ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کا نام استعمال کریں گے لیکن کسی کا نام نہیں لیں گے،
اس حوالے سے نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان بات بڑی تفصیل کیساتھ ہوئی ہے، بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے انٹرویو میں یہ بات کہی ہے کہ نوازشریف جس کا نام لینا چاہتے ہیں یہ ان کا حق ہے،ہمارا ان کیساتھ کوئی اختلاف نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی خود نام لیتی رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ15 نومبر کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نام لینے کے معاملے پر ن لیگ کیساتھ کھڑی ہو جائے۔