نیویارک (این این آئی) امریکی خلائی ادارے ناسا نے دو کروڑ 30 لاکھ ڈالر (تقریباً ساڑھے تین ارب روپے) ایک ٹوائلٹ کے لیے فلش کر دیئے۔ ٹائٹینیم دھات سے بنے نئے ٹوائلٹ کو عالمی خلائی مرکز پر ٹیسٹ کے لیے روانہ کیا جائے گا، اسے مستقبل میں چاند پر بھیجے جانے والے مشنز میں بھی استعمال میں لایا جائے گا۔جانسن سپیس سینٹر سے وابستہ میلیسا میک کینلی نے لانچ سے پہلے
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ گندگی کو صاف کرنا ایک بہت اہم بات ہے۔ ہم اس میں کسی قسم کی کمی یا فرار نہیں چاہتے۔خبر رساں ادارے کے مطابق 100 پاؤنڈ وزنی اور 28 انچ اونچا یہ پروٹو ٹائپ ٹوائلٹ اس وقت مدار میں موجود روسی ٹوائلٹ کے نصف حجم کے برابر ہے اور مستقبل قریب میں چاند پر خلا بازوں کو لے جانے والے ناسا کے اوریئن کیپسول اور ممکنہ طور پر مزید آگے یعنی مریخ پر بھیجے جانے والے مشنز پر فٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔اگرچہ پرانے ٹوائلٹ مردوں کے لیے زیادہ موزوں تھے لیکن اس اپ گریڈ ورڑن میں میں سیٹ جھکی ہوئی اور تھوڑی اونچی ہے جس کو خواتین کے لیے بہتر انداز میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ناسا خفیہ طور پر مریخ پر بھیجے جانے والے مشنز میں صرف خواتین کو شامل کرنا چاہتا ہے۔کینیڈی سپیس سنٹر سے 31 اکتوبر کو لانچ ہونے والے دوسرے سپیس ایکس کے عملے کے کمانڈر اور ناسا کے خلاباز مائیک ہاپکنز نے اے پی کو بتایا کہ ‘پرانا ڈیزائن خاص طور پر استعمال میں مشکل نہیں تھا لیکن بعض اوقات آسان چیزیں بھی بہت مشکل ہوجاتی ہیں۔خلاباز شینن واکر اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یقین کریں خلا میں باتھ روم جانا سیکھ لیا ہے کیوں کہ یہ جاننا ایک انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ اسے کیسے استعمال کرنا ہے۔ یہ دراصل ایک ویکیوم سسٹم کی طرح کام کرتے ہیں لہذا تصور کریں کہ اگر آپ کے پاس ویکیوم کلینر موجود ہے اور جو چیزوں کو کھینچ رہا ہے۔ آپ ایک بڑا پنکھا چلائیں گے
اور سب کچھ بیت الخلا میں کھینچا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک لمبی قیف ہے جو تمام پیشاب کو جمع کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور پھر ایک اور سیٹ ہے جس پر آپ بیٹھ سکتے ہیں، پھر وہی پنکھا تمام مواد کو کھینچ لیتا ہے اور ایک جگہ جمع کر دیتا ہے۔فی الحال پانی پر مشتمل فضلے جیسے پیشاب اور پسینے کو 90 فیصد تک ری سائیکل کیا جاتا ہے اور مسز میئر کا کہنا ہے کہ مریخ تک پہنچنے کے لیے پہلے انسانی مشن سے پہلے ری سائیکلنگ کی شرح کو 98 فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔