اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم”عوام کی خوشحالی” میں لکھتے ہیں کہ میں 35 سال پہلے چین گیا تھا۔ میں وہاں کی انڈسٹری دیکھنے گیا تھا کہ شاید ہمارے کچھ کام آسکے۔اس وقت وہ مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر یہ خیال و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند سالوں میں چین دنیا کی دوسری معاشی قوت بن جائے گا۔
مجھے آج بھی یاد ہے ان کی مہمان نوازی۔ان کی اپنے ملک سے محبت، جفاکشی، اور غیرت و وقار قابلِ دید تھا۔ اس وقت ان کے ہاں سب سے بڑا مسئلہ اتنی بڑی آبادی کو کھانا فراہم کرناتھا۔ اس کا حل انھوں نے بہت ہی اعلیٰ منصوبہ بندی سے نکالا۔ انھوں نے نچلی سطح پر پورے ملک میں کمیون (Commune) سسٹم جاری کیا۔ کمیون ایک چھوٹی مکمل بستی کہلاتی ہے۔ ایک کمیون کئی سو ایکڑ پر پھیلا ہوتا تھا۔ اس میں پولٹری فارم، بطخ فارم، مچھلیوں کی افزائش کا فارم وغیرہ، سبزیوں کے کھیت، گندم و مکئی کے کھیت، غرض ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں وہاں پیدا کی جارہی تھیں۔ وہیں لوگوں کے رہنے کے لئے فلیٹ تھے۔ بجلی، پانی، گیس مفت تھا۔سب سے اہم وہاں Barefoot doctors کی بھی بڑی جماعت تھی یہ ہمارے اچھے تجربہ کار کمپائونڈر کی طرح ہوتے تھے، ۔ کپڑے، جوتے چپراسی سے وزیر اعظم تک ایک ہی طرح کے ہوتے تھے۔ افواج میں بھی یہی روایت تھی۔ نتیجہ دیکھئے ایک نسل نے ہی غربت سے امارت کی منزل طے کرلی۔ ہم ان کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں تھے مگر 70 برس بعد بھی ہم اتنی ترقی نہیں کر پائے جتنی چین نے کی ہے۔دیکھئے، میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ کمیون سسٹم سے چین نے پورا فائدہ اٹھایا۔
ہمیں چاہئے کہ انقلابی، جنگی اصولوں کی بنیاد پر ملک میں خالی جگہوں پر سختی سے کاشتکاری کروائیں اور ملک کی معیشت کو بہتر بنائیں۔ یہاں بھی یورپ کی طرح بنیادی تعلیم لازمی ہونا چاہئے اور چھوٹے کاشتکاروں اور دکانداروں کے لئے مناسب کورسز ہونے چاہئیں۔ ایک طریقے سے چھوٹے کمیون سسٹم اس ملک کی حالت بدل سکتے ہیں۔کمشنروں کو یہ اختیار دیدیں کہ وہ اپنے علاقوں میں جاکر غیراستعمال شدہ زمینوں کو کارآمد بنوائیں اور ملک کی بہتری کے لئے کام میں لائیں۔
آپ جاکر دیکھیں چین میں 100 مربع فٹ پر بھی کاشتکاری ہوتی ہے لوگ اپنے استعمال کی سبزیاں لگالیتے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور رقم بھی بچالیتے ہیں۔ آپ یہاں موٹروے وغیرہ پر سفر کریں تو دیکھیں گے کہ ہزاروں ایکڑ زمین خالی پڑی ہے اور بعض جگہوں پر بارش کے پانی کے کٹائو سے بڑے ٹیلے اور گڑھے بن گئے ہیں، یہ چٹانیں نہیں ہیں نرم زمین ہے اس کو بہ آسانی ہموار کیا جاسکتا ہے اور کاشت کاری کے قابل بنایاجاسکتا ہے مگر وہی ضرب المثل ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔