اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے معاملہ پر جہاں ایک طرف سیاست ہو رہی وہیں جھوٹا پروپیگنڈہ بھی خوب کیا جا رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔این جی اوز میدان میں نکل آئیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بیان جاری کر دیا، سول سوسائٹی اپنی آواز بلند کر رہی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مذہبی طبقہ کا بھی رد عمل سامنے آ رہا۔
روزنامہ جنگ میں انصار عباسی لکھتے ہیں کہ یہ معاملہ ایک تنازعہ کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ آیا مندر اسلام آباد میں بننا چاہیے یا نہیں۔ کیس کے حقائق کو جانے بغیر اقلیتوں کے حقوق کے نام پر پارلیمنٹ تک میں تقریریں کی جارہی ہیں اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے ایسی ایسی باتیں کی جا رہی ہے جو پہلے کبھی نہ دیکھیں نہ سنی۔ن لیگ کے ایک ذمہ دار نے جوش خطابت میں یہ تک کہہ دیا کہ کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں۔ اس پر جب جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی کی طرف سے اعتراض کیا گیا تو جماعت اسلامی کو طعنہ سازی کا نشانہ بناتے ہوئےبغیر کسی معذرت اور شرمندگی کے وضاحت یہ کی گئی کہ آئین کہتا ہے کہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق برابر ہیں چاہے کسی کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو۔اب ذرا حقاق سن لیں۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے لیے نواز شریف دور حکومت (2016) میں چار کنال زمین کی جگہ سی ڈی اے کی طرف سے متعین کی گئی۔تحریک انصاف کی حکومت آنے کےبعد حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قومی خزانہ سے پچاس کڑور روپیہ مندر کی تعمیر کے لیے مختص کیا جائے جس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حال ہی میں سی ڈی اے سے بغیر منظوری کے مندر کے لیے مختص پلاٹ پر دیواریں بنانا شروع کر دی گئی جس پر قانونی طور پر سی ڈی اے نے نوٹس جاری کیا۔
قانون کے مطابق کسی قسم کی تعمیر کے لیے سی ڈی اے سے منظوری لینا لازم ہے۔ نوٹس ملنے پر یہ ایشو بنا دیا گیا کہ سی ڈی اے نے مندر کی تعمیر روک دی جس کی وجہ قانونی نہیں بلکہ مذہبی ہے جو سراسر جھوٹ ہے لیکن اس جھوٹ کو خوب پھیلایا جا رہا ہے اور اسی جھوٹ کی بنیاد پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، این جی اوز اور ایک مخصوص طبقہ اپنی اپنی دکانیں چمکا کر رہے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کیاامریکا، برطانیہ، یورپ میں بغیر اجازت کے کوئی مسجد، کوئی مندر حتیٰ کہ کوئی گرجاگھر بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟؟
اگر نہیں تو سی ڈے اے اگر قانون کی عملداری کے لیے مندر کی غیر قانونی تعمیر کو روکنے کے لیے نوٹس جاری کر رہا ہے تو اس پر اتنا شور کیوں۔جس دن مندر کی تعمیر کے غیر قانونی کام کو روکنے کے لیے سی ڈے اے نے نوٹس جاری کیا اور اسے اقلیتوں کے حقوق کے خلاف اقدام گردانا گیا اُسی روز اسلام آباد کے ہی علاقہ سہالہ میں ایک ایسی مسجد کو شہید کیا گیا جس کے بارے میں سی ڈی اے کا کہنا ہے تو وہ غیر قانونی تعمیر تھی۔ کیا اس مسجد کے شہید کیے جانے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، این جی اوز ، میڈیا اور ہماری پارلیمنٹ میںکوئی بات ہوئی؟؟؟ بالکل نہیں۔سی ٖڈی اے نے ایک نہیں بلکہ کئی اور مساجد کو نوٹس جاری کیے اور ماضی میں کئی ایسی مساجد کو شہید بھی کیا گیا جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اُن کی تعمیر غیر قانونی تھی۔ گویا مندر کی تعمیر کے قانونی معاملہ کو مذہبی رنگ دینا دراصل ایک غیر قانونی عمل کی حمایت کرنا ہے جس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔