ہفتہ‬‮ ، 28 جون‬‮ 2025 

مہلک وباء کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد کا انسان کیسا ہوگا، وہ کس قسم کی زندگی گزارے گا اور یہ دنیا کیسی ہو گی؟یہ وباء 2 لاکھ سال پہلے کے انسانوں پر آتی تو ان کی حالت کیا ہوتی ؟ حیرت انگیز انکشافات

datetime 12  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )معروف سینئر کالم نگار یاسر پیرزادہ اپنے کالم ’’وبا کے بعد کی زندگی کیسی ہوگی؟‘‘میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔فی الحال مگر سوال یہ ہے کہ اِس وبا کے خاتمے کے بعد کا انسان کیسا ہوگا، وہ کس قسم کی زندگی گزارے گا اور یہ دنیا کیسی ہو گی؟ اگر یہ وبا آ ج سے دو لاکھ سال پہلے آئی ہوتی تو شاید اُس وقت کے انسان کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ فرق نہ پڑتا، وہ ویسے ہی

جنگلوں میں رہتا، اسی طرح پیڑ سے پھل توڑ کر کھاتا، حسبِ توفیق جانوروں کا شکار کرتا اور شام کو اپنی مادہ سے بالوں کی جوئیں نکلواتا (یا ’vice versa‘)۔ آج کا انسان ایسے نہیں جی سکتا، کچھ دیر کے لیے ہم ماسک پہن لیں گے، گھروں میں بھی بیٹھ جائیں گے، ایک دوسرے سے ملنے میں بھی احتیاط برتیں گے مگر بالآخر تنگ پڑ جائیں گے، ہمیشہ کے لیے یہ طرزِ زندگی شاید ہمیں قبول نہ ہو۔ آخر ہم نے ومبلڈن دیکھنا ہے، فٹ بال کھیلنا ہے، اولمپک منعقد کروانا ہیں، دنیا کی رنگینیاں سمیٹنی ہیں، ملکوں ملکوں گھومنا ہے، اپنے رب کے گھر بھی حاضری دینی ہے، زیارتیں کرنی ہیں۔سب سے پہلی تبدیلی جس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں وہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔ دو دن پہلے گوگل نے دنیا بھر کے ممالک کا ڈیٹا ویب سائٹ پر ڈالا جس سے پتا چلایا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد لوگوں کی نقل و حرکت کس حد تک محدود ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ گوگل کے پاس ان معلومات کی رسائی ہے جو صارف کی نقل و حرکت سے متعلق ہیں، اِس سے اگلے مرحلے میں یہ ہوگا کہ حکومتیں اپنے شہریوں کی صحت کی حفاظت کی خاطر مزید ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کریں گی تاکہ مستقبل میں وبا کو پھوٹنے سے روکا جا سکے۔ ایک آئیڈیا اِس خاکسار کے ذہن میں بھی آیا ہے کہ دنیا کی تمام حکومتیں عالمی ادارۂ صحت کے تعاون سے ایک ایسا مربوط ڈیٹا بیس تیار کریں

جس میں وائرس سے متاثرہ اور صحت یاب ہونے والے لوگوں کا ڈیٹا ہو، انہیں ایک مخصوص نمبر دے دیا جائے جو اُن کی شناخت ہو، ویکسین ایجاد ہونے کے بعد باقی لوگوں کو بھی اِس ڈیٹا بیس میں شامل کر لیا جائے جو اِس بیماری سے محفوظ تصور کیے جائیں، پھر اِس ڈیٹا بیس کو موبائل ایپ کے

ساتھ منسلک کر دیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دنیا میں وائرس سے کتنی آبادی محفوظ ہے اور کتنی آبادی کو ابھی ویکسین کی ضرورت ہے۔ اِس ڈیٹا بیس سے عام لوگوں کو بھی پتا چل جائے گا کہ کسی اجتماع میں جانا محفوظ ہے یا نہیں، سفر کے دوران اذیت ناک اسکریننگ کی بجائے پاسپورٹ کے ساتھ صحت کا یہ نمبر بھی امیگریشن کاؤنٹر پر چیک کر لیا جائے کہ کہیں مسافر میں وائرس تو نہیں، بالکل ایسے

جیسے کمپیوٹر میں اینٹی وائرس سافٹ ویئر ڈال کر کھنگالا جاتا ہے۔انسان کی زندگی کس قدر بےمعنی ہے یہ اِس وبا نے ایک مرتبہ پھر ہمیں سمجھا دیا ہے۔ جب سب کچھ دوبارہ سے واپس آئے گا تو زندگی کے متعلق ہمارے رویے تبدیل ہو چکے ہوں گے، ہم ایک ایسی دنیا میں واپس آئیں گے جو بالکل نئی ہو گی جس میں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ’محفوظ مستقبل‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، آنے والا ہر لمحہ اگر آگہی کا سبب بنتا ہے تو ساتھ ہی ایک نامعلوم بلیک ہول کا در بھی کھول دیتا ہے۔ نامعلوم سے معلوم تک کا یہ سفر جاری رہے گا، انسان کی پیاس نہیں بجھے گی۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ٹیسٹنگ گرائونڈ


چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…