اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مہلک وباء کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد کا انسان کیسا ہوگا، وہ کس قسم کی زندگی گزارے گا اور یہ دنیا کیسی ہو گی؟یہ وباء 2 لاکھ سال پہلے کے انسانوں پر آتی تو ان کی حالت کیا ہوتی ؟ حیرت انگیز انکشافات

datetime 12  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )معروف سینئر کالم نگار یاسر پیرزادہ اپنے کالم ’’وبا کے بعد کی زندگی کیسی ہوگی؟‘‘میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔فی الحال مگر سوال یہ ہے کہ اِس وبا کے خاتمے کے بعد کا انسان کیسا ہوگا، وہ کس قسم کی زندگی گزارے گا اور یہ دنیا کیسی ہو گی؟ اگر یہ وبا آ ج سے دو لاکھ سال پہلے آئی ہوتی تو شاید اُس وقت کے انسان کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ فرق نہ پڑتا، وہ ویسے ہی

جنگلوں میں رہتا، اسی طرح پیڑ سے پھل توڑ کر کھاتا، حسبِ توفیق جانوروں کا شکار کرتا اور شام کو اپنی مادہ سے بالوں کی جوئیں نکلواتا (یا ’vice versa‘)۔ آج کا انسان ایسے نہیں جی سکتا، کچھ دیر کے لیے ہم ماسک پہن لیں گے، گھروں میں بھی بیٹھ جائیں گے، ایک دوسرے سے ملنے میں بھی احتیاط برتیں گے مگر بالآخر تنگ پڑ جائیں گے، ہمیشہ کے لیے یہ طرزِ زندگی شاید ہمیں قبول نہ ہو۔ آخر ہم نے ومبلڈن دیکھنا ہے، فٹ بال کھیلنا ہے، اولمپک منعقد کروانا ہیں، دنیا کی رنگینیاں سمیٹنی ہیں، ملکوں ملکوں گھومنا ہے، اپنے رب کے گھر بھی حاضری دینی ہے، زیارتیں کرنی ہیں۔سب سے پہلی تبدیلی جس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں وہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔ دو دن پہلے گوگل نے دنیا بھر کے ممالک کا ڈیٹا ویب سائٹ پر ڈالا جس سے پتا چلایا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد لوگوں کی نقل و حرکت کس حد تک محدود ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ گوگل کے پاس ان معلومات کی رسائی ہے جو صارف کی نقل و حرکت سے متعلق ہیں، اِس سے اگلے مرحلے میں یہ ہوگا کہ حکومتیں اپنے شہریوں کی صحت کی حفاظت کی خاطر مزید ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کریں گی تاکہ مستقبل میں وبا کو پھوٹنے سے روکا جا سکے۔ ایک آئیڈیا اِس خاکسار کے ذہن میں بھی آیا ہے کہ دنیا کی تمام حکومتیں عالمی ادارۂ صحت کے تعاون سے ایک ایسا مربوط ڈیٹا بیس تیار کریں

جس میں وائرس سے متاثرہ اور صحت یاب ہونے والے لوگوں کا ڈیٹا ہو، انہیں ایک مخصوص نمبر دے دیا جائے جو اُن کی شناخت ہو، ویکسین ایجاد ہونے کے بعد باقی لوگوں کو بھی اِس ڈیٹا بیس میں شامل کر لیا جائے جو اِس بیماری سے محفوظ تصور کیے جائیں، پھر اِس ڈیٹا بیس کو موبائل ایپ کے

ساتھ منسلک کر دیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دنیا میں وائرس سے کتنی آبادی محفوظ ہے اور کتنی آبادی کو ابھی ویکسین کی ضرورت ہے۔ اِس ڈیٹا بیس سے عام لوگوں کو بھی پتا چل جائے گا کہ کسی اجتماع میں جانا محفوظ ہے یا نہیں، سفر کے دوران اذیت ناک اسکریننگ کی بجائے پاسپورٹ کے ساتھ صحت کا یہ نمبر بھی امیگریشن کاؤنٹر پر چیک کر لیا جائے کہ کہیں مسافر میں وائرس تو نہیں، بالکل ایسے

جیسے کمپیوٹر میں اینٹی وائرس سافٹ ویئر ڈال کر کھنگالا جاتا ہے۔انسان کی زندگی کس قدر بےمعنی ہے یہ اِس وبا نے ایک مرتبہ پھر ہمیں سمجھا دیا ہے۔ جب سب کچھ دوبارہ سے واپس آئے گا تو زندگی کے متعلق ہمارے رویے تبدیل ہو چکے ہوں گے، ہم ایک ایسی دنیا میں واپس آئیں گے جو بالکل نئی ہو گی جس میں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ’محفوظ مستقبل‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، آنے والا ہر لمحہ اگر آگہی کا سبب بنتا ہے تو ساتھ ہی ایک نامعلوم بلیک ہول کا در بھی کھول دیتا ہے۔ نامعلوم سے معلوم تک کا یہ سفر جاری رہے گا، انسان کی پیاس نہیں بجھے گی۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…