لاہور (آن لائن) پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات میڈیا مہم تک محدود ہوگئے۔ جبکہ کرونا کو پھیلاؤ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لئے ایران سے آنے والے زائرین کو تافتان بارڈر پر روکنے کے بجائے بڑی تیزی سے ملک کے مختلف حصوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان کے تمام ادارے جو کرونا سے بچاؤ اور روک تھام کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔
وفاقی ادارہ صحت سمیت کسی ادارے نے ایران سے ملحقہ بلوچستان کے بارڈر پر نہ تو ڈاکٹر کی بڑی ٹیم بھجوائی ہے اور نہ ہی عارضی صحت گاہ بنائی ہے۔ جس میں ایران سے آنے والے مریضوں کو رکھ کر کرونا وائرس کو ملک میں پھیلنے سے روکا جائے۔ اس کے برعکس حکومت کراچی، خیبرپختونخواہ میں عارضی ہسپتال اور آئسولیشن سنٹر بنا رہی ہے۔ جہاں ایران سے آئے لوگوں کو تافتان بارڈر سے بسوں میں سوار کرا کر پنجاب سمیت دیگر علاقوں میں پہنچایا جائے گا۔ بارڈر سے ڈیرہ اسماعیل خان، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، لاہور اور گجرات کا سینکڑوں کلو میٹر کا سفر کرونا سے متاثر زائرین بسوں میں بیٹھ کرتے ہیں۔ یہ سفر 20 سے 30 گھنٹے میں ختم ہوگا۔ اس دوران متاثرہ مریضوں کی بسیں ہر 3 گھنٹے بعد مختلف مقامات کے ہوٹلوں پر رکتی ہیں۔ جہاں زائرین کھانا کھاتے اور ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان مقامات پر نہ تو کرونا سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات ہیں اور نہ وہاں سے متاثر زائرین کی خدمت کرنے والے ہوٹل کے ملازمین کو کوئی حفاظتی لباس یا ماسک فراہم کئے گئے ہیں۔ سفر کرنے والے زائرین بارڈر سے نکلنے کے بعد پاکستان بھر کے مختلف علاقوں میں کرونا وائرس پھیلاتے ہوئے۔ اپنے گھر کے قریب علاج گاہ تک جا رہے ہیں۔ جبکہ حکومت میڈیا پر مسلسل پراپیگنڈا کر رہی ہے کہ احتیاط کریں اور خود کرونا کا وائرس پاکستان بھر میں بھجوا رہی ہے۔ کیونکہ آنے والے متاثرین مریضوں کے علاج کے لئے آج کے دن تک خاطر خواہ علاج گاہیں مکمل نہیں ہوسکی
اور نہ ہی مریضوں کے لواحقین کو میل جول سے سختی سے روکا گیا ہے۔ حکومت نے کرونا وائرس کو بارڈر سے اٹھا کر ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور ڈیرہ اسماعیل خان تک تو پہنچا دیا ہے۔ اب اگلا مرحلہ کرونا کو لاہور، گجرات، بہاولپور تک لانے کا ہے کیونکہ حکومت نے ڈاکٹروں کے علاوہ کرونا سے متاثرہ مریضوں کے حفاظت پر تعینات پولیس اہلکار اور دیگر لوگوں کو کوئی کٹ فراہم نہیں کی ہے۔