اسلام آباد (این این آئی)گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق شرح سود 13.25 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ رواں سال ملک میں مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد رہے گی تاہم سپلائی کا عمل بہتر ہونے سے مہنگائی کی شرح کم ہونے کی توقع ہے، رواں سال زرعی پیداوار ہدف سے کم ہونے کا خدشہ ہے ، مقامی مارکیٹ میں سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے،
برآمدی شعبے کو خصوصی طور پر سپورٹ کیا جارہا ہے،معاشی استحکام میں مزید بہتری آرہی ہے اور برآمدی شبعے کیلئے قرضوں کی حد 200 ارب روپے کی جارہی ہے،اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے،روایتی کی بجائے تمام مصنوعات کی برآمد کے لیے اقدامات کررہے ہیں،کاروباری برادری کے لیے سرمایہ کاری اور درآمدی عمل کو آسان بنایا جارہا ہے اور شرح مبادلہ کے نظام میں اصلاحات کر کے پائیدار نظام وضع کیا گیا ہے، غیرملکی سرمایہ اب پاکستانی ٹی بلز میں سرمایہ کاری کررہے ہیں،ورکنگ کیپیٹل اسکیم میں بھی 100 ارب روپے کا اضافہ کیا جارہا ہے،چھوٹے برآمد کنندگان کے لیے بھی جلد نئی اسکیم کا اعلان کیا جائیگا۔ منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے بتایا کہ زری پالیسی کمیٹی(ایم پی سی) نے اپنے 28 جنوری 2020ء کے اجلاس میں پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور 13.25 فیصدپر قائم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس فیصلے سے کمیٹی کے اس نقطہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے کہ مہنگائی کا منظرنامہ زیادہ تر پہلے جیسا ہی رہا ہے۔ ایک جانب مہنگائی کے اعدادوشمار زیادہ تر بلند رہے اور بنیادی طور پر غذائی قیمتوں کے دھچکوں اور یوٹیلٹی نرخوں میں ممکنہ اضافے کی بنا پر مہنگائی کو مختصر مدتی خطرات لاحق رہے ہیں،دوسری جانب کئی عوامل ایسے ہیں جن کے نتیجے میں مہنگائی پر دباؤ بتدریج کم ہونے کی توقع ہے۔
ان میں مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ کے متعارف کیے جانے کے بعد ایکسچینج ریٹ میں حالیہ اضافہ اور جاری مالیاتی یکجائی شامل ہیں۔مجموعی طور پر مالی سال 20ء کے لیے اسٹیٹ بینک کی اوسط مہنگائی کے لیے پیش گوئی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور وہ 11-12 فیصد ہے۔ ایم پی سی نے موجودہ زری پالیسی موقف کو آئندہ چھ تا آٹھ سہ ماہیوں کے دوران مہنگائی کے وسط مدتی ہدف 5-7 فیصد کی
حدود میں لانے کے حوالے سے بھی موزوں قرار دیا۔انہوںنے کہاکہ یہ فیصلہ کرنے میں ایم پی سی نے حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں اہم تبدیلیوں کے ساتھ ان سے متعلق پیش گوئیوں اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے منظرنامے کو پیش نظر رکھا۔انہوںنے گذشتہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے بتایاکہ ایم پی سی نے 22نومبر 2019ء کو ہونے والے
گذشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی تین اہم تبدیلیوں کا ذکر کیا۔ اوّل، جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں اور جاری کمی اور مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ نظام اپنائے جانے کے بعد زرمبادلہ مارکیٹ میں منظم حالات ملک کے بیرونی کھاتوں کو بہتر بناتے رہے۔ دوم، آئی بی اے -ایس بی پی کے کاروباری طبقے کے اعتماد کے سروے کی مسلسل تیسری لہر میں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے کاروباری طبقے کے
نقطہ نظر میں بہتری دیکھی گئی۔ سوم، مالیاتی تبدیلیاں درست راہ پر گامزن اور آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں سے ہم آہنگ رہیں جس سے مجموعی معاشی اصلاحاتی احساسات میں تیزی آئی۔انہوںنے کہاکہ اہم فصلوں کی پیداوار کے تازہ ترین تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کپاس کے سوا خریف کی تمام فصلوں کی پیداوار توقع کے مطابق رہی۔ رسدی دھچکوں کے باعث کپاس کی
پیداوار کے تخمینے میں کمی کی گئی۔ بڑے پیمانے پر اشیا سازی (ایل ایس ایم) سے ظاہر ہوتا ہے کہ برآمداتی اور درآمدی مسابقت پر مبنی صنعتوں میں معاشی سرگرمی بڑھ رہی ہے جبکہ ملکی نوعیت کی صنعتیں بدستور سست روی کا شکار ہیں۔ خاص طور پر ایل ایس ایم کے اعدادوشمار سے ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، انجینئرنگ کے سامان، ربڑ کی مصنوعات، سیمنٹ اور کھاد میں تیزی جبکہ گاڑیوں،
الیکٹرانکس، غذا، کیمیکلز اور پیٹرولیم مصنوعات میں سست روی سامنے آئی۔بنیادی طور پر کپاس کی پیداوار کو پہنچنے والے منفی رسدی دھچکوں اور اب تک ایل ایس ایم میں سکڑاؤ کی بنا پر امکان ہے کہ اسٹیٹ بینک مالی سال 20ء کے لیے حقیقی جی ڈی پی نمو کی پیش گوئی میں کمی کردے گا۔تاہم سرگرمیوں کے دستیاب ماہانہ اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر معاشی شعبوں میں سست روی اپنی پست ترین
سطح تک پہنچ چکی ہے اور آئندہ مہینوں میں بتدریج بحالی متوقع ہے۔ ایم پی سی نے ایل ایس ایم اشاریے کے معیار کے حوالے سے بھی تشویش ظاہر کی جو معاشی سرگرمی میں سست روی کو بڑھا کر بیان کرتا ہے۔انہوںنے کہاکہ مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 75 فیصد کمی کے ساتھ 2.15 ارب ڈالر پر آ گیا ، جس کا سبب درآمدات میں نمایاں کمی اور برآمدات اور کارکنوں کی
ترسیلات زر دونوں میں معتدل نمو ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جولائی تا دسمبر مالی سال 20ء میں چاول، قدر اضافی کی حامل ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات ، مچھلی اور گوشت سمیت اہم اشیا کی برآمدی مقدار میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،یہ صورت حال زیادہ مسابقت کی حامل شرح مبادلہ اور برآمدی شعبوں کی جانب سے ترغیبی قرضہ اسکیموں کو استعمال کرنے کے فوائد کی عکاس ہے۔
سرمایہ کھاتے میں بھی بیرونی پورٹ فولیو سرمایہ کاری اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری رقوم کی آمد کے باعث مسلسل بہتری کا رجحان رہا۔انہوںنے کہاکہ مذکورہ سازگار حالات کی بدولت دسمبر 2019ء کے اوائل میں بین الاقوامی صکوک بانڈز کی مد میں 1.0 ارب امریکی ڈالر کی واپسی کے باوجود اسٹیٹ بینک کو اپنے زرمبادلہ ذخائر بڑھانے میں سہولت ملی۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر
آخر جون 2019ء تک 7.28 ارب ڈالر تھے جو 17جنوری 2020ء تک بڑھ کر 11.73 ارب ڈالر پر آ گئے۔ اس طرح ذخائر میں 4.45 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور مالی سال 20ء کے ابتدائی چھ مہینوں میں اسٹیٹ بینک کے قلیل مدتی واجبات میں 3.82ارب ڈالر کمی ہوئی۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے خالص بین الاقوامی ذخائر (NIR) کی پوزیشن میں خاصی بہتری آ چکی ہے۔انہوںنے کہاکہ
زری پالیسی کمیٹی نے رائے ظاہر کی کہ بیرونی پورٹ فولیو رقوم کی حالیہ آمد قرض کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کی ساکھ کے بارے میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے بہتر ہوتے ہوئے احساس کی عکاس ہے۔ ایسی رقوم کی آمد سرکاری تمسکات (سیکورٹیز) کی طلب میں اضافے کے باعث سرکاری قرضے پر شرحِ سود گھٹا دیتی ہے ، بازار سرمایہ میں گہرائی لاتی ہے، اور ملکی بینکوں کو
یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے وسائل نجی شعبے کو بطور قرض جاری کر سکیں۔ کمیٹی نے تذکرہ کیا کہ اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کی موزونیت میں بہتری کا سبب جاری کھاتے میں بہتری ہے، نہ کہ پورٹ فولیو رقوم کی آمد، اور جاری رقوم کی آمد مجموعی قابلِ فروخت (marketable) سرکاری قرضے میں صرف 3.8 فیصد ہے۔ چنانچہ ایسی رقوم کی موجودہ سطح پر آمد محدود خطرات کی عکاسی کرتی ہے۔
زری پالیسی کمیٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے تبدیلیوں پر بدستور گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اگر کچھ رقوم کا اخراج ہوا بھی تو منظّم انداز میں اس کے بندوبست کے لیے کافی رقوم بفرز کی صورت میں اس کے پاس موجود ہیں۔ کمیٹی کی رائے تھی کہ زری پالیسی بدستور مہنگائی وسط مدتی منظرنامے پر مبنی رہے گی۔مالیاتی شعبہ کے حوالے سے انہوںنے بتایاکہ مالی سال کے دوران مالیاتی یکجائی
اب تک درست راستے پر گامزن رہی ہے اور مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری لائی ہے۔ مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران ٹیکس وصولی میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے ، غیر سودی اخراجاتِ جاریہ پر سختی سے قابو پایا گیا ہے، سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی)کے لیے وفاقی حکومت نے مالی سال 20ء کی
پہلی ششماہی کے دوران 300 ارب روپے جاری کیے جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے لیے 187 ارب روپے تھے۔ سرکاری اخراجات میں اس اضافے سے توقع ہے کہ کاروباری خصوصاً تعمیرات سے منسلک سرگرمیوں کو سہارا ملے گا۔ کمیٹی نے زری پالیسی کے نقطہ نظر سے زور دے کر کہا کہ مارکیٹ کے احساسات کو موثر طور پر قابو میں رکھنے اور مہنگائی کا منظرنامہ بہتر بنانے میں بنیادی مدد مالیاتی
دور اندیشی کو برقرار رکھنے سے ملے گی۔انہوںنے بتایاکہ یکم جولائی تا 17جنوری مالی سال 20ء کے دوران نجی شعبے کے قرضے میں گذشتہ برس کی اسی مدت کے 8.5 فیصد کی نسبت 2.2فیصد اضافہ ہوا۔ یہ سست روی بڑی حد تک پست معاشی سرگرمی کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم اسی مدت کے دوران اسٹیٹ بینک کی برآمدی مالکاری اسکیم اور طویل مدتی مالکاری سہولت برائے برآمد کنندگان کے تحت لیے گئے
قرضوں میں 20.6 فیصد اور 13.2 فیصد اضافہ ہوا، جس سے برآمدات کی حالیہ نمو کو تقویت ملی ہے۔انہوںنے کہاکہ زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ مہنگائی کے حالیہ اعدادوشمار اضافے کے عکاس رہے ہیں، نومبر اور دسمبر 2019ء کے دوران قومی صارف اشاریہ قیمت (CPI)مہنگائی بڑھ کر 12.7 فیصد اور 12.6 فیصد (سال بسال بنیاد پر) ہوگئی، جو بڑی حد تک رسد کے عارضی تعطل اور مقررہ قیمتوں کے
بڑھنے کی وجہ سے منتخب غذائی اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہی تو غذائی اشیا کی بلند قیمتیں اجرت میں تیز اضافے کی طلب اور اجرت و قیمت کے چکر کے ممکنہ خطرات پر منتج ہوں گی تاہم دستیاب شواہد بتاتے ہیں کہ ان رسدی دھچکوں سے مہنگائی پر ایسیدور ثانی کے اثرات سامنے نہیں آئے ہیں اور مہنگائی کی توقعات خاصی حد تک قابو میں ہیں،
نتیجتاً، زری پالیسی کمیٹی نے صارف اشاریہ قیمت میں حالیہ اضافے کو نوعیت کے اعتبار سے بنیادی طور پر عارضی قرار دیا۔زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ پیش بینی کی بنیاد پرحقیقی شرح سود دیگر ابھرتی ہوئی منڈیوں کے مقابلے اور پاکستانی تجربے کے تناظر میں بلند نہیں۔