اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’وہ لوگ وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔یہ سسٹم معمول کے مطابق چل رہا تھا لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی‘ یہ لوگ ناتجربہ کار تھے‘ عثمان بزدار اور محمود خان نے ضلعی حکومت تک نہیں چلائی تھی چناں چہ انہوں نے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو بھی اتھل پتھل کر دیا‘ وفاق میں آفس مینجمنٹ گروپ کے
افسر ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی کو سیکرٹری فوڈ سیکورٹی لگا دیا گیا‘ یہ شریف اور ایمان دار افسر ہیں لیکن انہوں نے کبھی فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں کام نہیں کیا ‘ یہ سسٹم کو سرے سے نہیں جانتے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 16 ماہ میں پانچ بار صوبائی سیکرٹری فوڈ تبدیل کر دیے‘ راولپنڈی کا ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ انتہائی اہم ہوتا ہے کیوں کہ بلتستان‘آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر موجود فوجی جوانوں کو آٹا بھی راولپنڈی سے سپلائی ہوتا ہے‘ عثمان بزدار نے اس پوسٹ سے تجربہ کار افسر ہٹا کر یہ پوزیشن 16 گریڈ کے ایک ٹیچرسلمان علی کے حوالے کر دی‘ سلمان علی پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہوں گے لیکن یہ فوڈ کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں جب کہ پنجاب کے سیکرٹری فوڈ اس وقت ظفر نصر اللہ ہیں۔ان کی شہرت بھی اچھی نہیں‘ میاں شہباز شریف نے دس سال کی مدت میں انہیں پنجاب میں گھسنے نہیں دیا تھا جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے انہیںاس نازک پوسٹ پر لگا دیا‘ وزیراعظم بھی گندم کی خریداری کے سسٹم سے واقف نہیں ہیں چناں چہ انہوں نے یہ ایشو جہانگیر ترین کے حوالے کر دیا اور فیڈرل سیکرٹری فوڈ سے لے کر پنجاب‘ کے پی کے اور بلوچستان کا فوڈ ڈیپارٹمنٹ براہ راست جہانگیر ترین کے کنٹرول میں چلا گیا‘ میٹنگ تک وزیراعظم کے ایڈوائزر شہزاد ارباب بلاتے ہیں اور جہانگیر ترین ان کے دفتر میں صدارتی کرسی پر بیٹھ کر فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں اور سیکرٹری کو ہدایات جاری کر تے ہیں چناں چہ آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں آپ کو جہانگیر ترین اس صورت حال کے مرکزی کردار ملیں گے۔