اسلام آباد (این این آئی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے موجودہ ایران امریکہ کشیدگی کے حوالے سے کہا ہے کہ علی الصبح ہونے والے حملے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق کسی جانی نقصان کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں ،ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق ایران کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا ، امریکہ کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔
خطہ کشیدگی اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا جنگ کسی کے مفاد میں نہیں اس کے عالمی معیشت پر اثرات مرتب ہونگے،پاکستان کی خواہش ہے حالات نہ بگڑیں ،پاکستان امن کا خواہاں ہے ، معاملات کو گفت وشنید کے ذریعے حل ہونا چاہیے، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ ایک بیان میں انہوںنے کہاکہ علی الصبح جن پر حملہ ہوا ہے وہ ابھی تک جائزہ لے رہے ہیں ،ابتدائی اطلاعات کے مطابق کسی جانی نقصان کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے حالیہ بیان کو دیکھا جائے تو انہوں نے کہا ہے کہ ایران کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا ،میں سمجھتا ہوں کہ ان کے بیان میں ایک سنجیدگی اور ٹھہراؤ تھا اور یہ بیان دانشمندی کا مظہر تھا۔انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ میرے اس سلسلے میں خطے کے مختلف وزرائے خارجہ سے روابط ہوئے ہیں،انہوں نے بتایاکہ گزشتہ روز میری قطر کے وزیر خارجہ سے بھی تفصیلی بات چیت ہوئی ،انہوں نے 3 جنوری کے واقعے کے بعد تہران کا دورہ بھی کیا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب کی کوشش ہے کہ خطے میں کشیدگی میں اضافہ نہ ہو صورتحال میں ٹھہراؤ پیدا ہو کیونکہ یہ خطہ کشیدگی اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جنگ کسی کے مفاد میں نہیں اس کے عالمی معیشت پر اثرات مرتب ہونگے۔انہوں نے کہاکہ میں نے اس سلسلے میں تفصیلی بیان سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی دیا ہے لیکن کیونکہ یہ صورتحال ابھی غیر یقینی ہے اس لئے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ میں بھی ایک بہت بڑا طبقہ جنگ کا حامی نہیں ہے اور امریکی افواج کو ایک نئی جنگ میں جھونکنے کا خواہشمند نہیں ہے سو دونوں آراء اس وقت موجود ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کی خواہش یہی ہے کہ حالات نہ بگڑیں اور یہ خطہ جنگ کی نئی دلدل میں نہ پھنس جائے،پاکستان امن کا خواہاں ہے پاکستان سمجھتا ہے کہ ان معاملات کو گفت وشنید کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ صورتحال کو سدھارنے کیلئے اقوام متحدہ،سیکورٹی کونسل اور عالمی برادری کو فی الفور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ میرا اس صورتحال پر پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان حکومتی موقف ہے جو وزیر اعظم کی مشاورت سے دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت میں حالات مسلسل بگڑتے جا رہے ہیں ۔
مودی سرکار کو عوامی ردعمل کی اس شدت کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا اسے کمیونیکیشن بلیک آؤٹ، انٹرنیٹ پر پابندی اور میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر کے اسے دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھالیکن جب انہوں نے ترمیمی شہریت ایکٹ اور این آر سی کے متنازعہ قوانین کو مسلط کرنے کی کوشش کی تو پورا ہندوستان اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے کہاکہ آپ نے دیکھا کہ آر ایس ایس کے غنڈوں نے پہلے جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جس طرح ان غنڈوں نے طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا اس کے خلاف پورے ہندوستان میں طلباء سراپا احتجاج ہیں مگر بھارت سرکار ابھی تک طاقت کے ذریعے دبانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اس داخلی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ بہت سے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں ،اسی لئے ہم نے بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کے خطرے کا اظہار کیا،جس طرح انہوں نے کرتار پور واقعہ کو بڑھا چڑھا کر اور حالات و واقعات کو جس طرح توڑ موڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی وہ بھی آپ کے سامنے ہے کیونکہ وہ محض جھوٹا پراپیگنڈا تھا اس لئے دم توڑ گیا۔انہوں نے کہاکہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے،پاکستان نے اپنی سکھ برادری کیلئے کرتار پور راہداری کھولنے میں جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے ہے،بھارت میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے معاملات بگڑ تو سکتے ہیں سدھر نہیں سکتے۔