لاہور(آن لائن)پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کی روشنی میں 10 دسمبر کو لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ کو آپریشنل کرنے کا اعلان کر دیا، میڈیا رپو رٹ کے مطا بق ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر
انکشاف کیا کہ 10 دسمبر کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار وزیروں اور صحافیوں پر مشتمل لگ بھگ 250 افراد کے قافلے کیساتھ ٹرین کے 27 کلو میٹر روٹ پر صرف نمائشی سفر کریں گے اور درحقیقت اس کا مقصد سپریم کورٹ کی اس منصوبے کو آپریشنل کرنے کے سلسلے میں مقرر کردہ جنوری 2020 کی ڈیڈ لائن سے قبل ٹرین کو چلتے ہوئے دکھانا ہے اور یہ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مئی 2018 میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے الیکٹرک انجنوں کے بجائے ڈیزل انجن سے منسلک کوچوں سے منصوبے کے افتتاح کا ایکشن ری پلے ہوگا۔ اس افسر نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا کہ منصوبے کے تعمیراتی ڈھانچے، بجلی کے نظام اور دیگر حصوں کا سیفٹی آڈٹ تا حال مکمل نہیں کیا گیا جس کے تحت یہ ضمانت دی جاسکے گی کہ ٹرین چلانے کا ڈھانچہ محفوظ ہے۔اس افسر نے کہا سیفٹی آڈٹ کیلئے تعمیراتی کاموں کی ٹھیکیدار کمپنیوں نے کم از کم 2 سے 3 ماہ کا وقت مانگا ہے جبکہ دوسری بڑی اور فیصلہ کن رکاوٹ یہ ہے کہ جن کورین اور چینی کمپنیوں کے جوائنٹ وینچر نے 11 سال کیلئے ٹرین چلانے اور اس کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ لینا ہے اس کے ساتھ ابھی حکومت پنجاب کا تحریری معاہدہ ہی نہیں ہوا اور وہ اس کام کیلئے 45 کروڑ روپے ماہانہ کا تقاضا کر رہے ہیں جس پر صوبائی حکومت کے تحفظات ہیں۔
ٹرین چلانے اور دیکھ بھال کے ٹھیکے کی نیلامی میں حصہ لینے کیلئے پاکستان ریلوے نے بھی بڈ ڈاکومنٹس حاصل کئے تھے لیکن میٹرو ٹرین چلانے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے مقابلے میں شرکت کا ارادہ ترک کر دیا، تاہم اس مقابلے میں کورین اور چینی کمپنیوں کا جوائنٹ وینچر فنی لحاظ سے موزوں ترین قرار پایا تھا۔ان کمپنیوں کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سیفٹی آڈٹ اور جوائنٹ وینچر سے باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ کمپنیاں ٹرین چلانے کے انتظامات کیلئے کم از کم 6 ماہ کا وقت مانگ رہی ہیں۔
لیکن پنجاب حکومت اور پراجیکٹ سے منسلک ذرائع کام کی رفتار تیز ترین کرنے کی شرط پر عوام کیلئے ٹرین چلنے کی تاریخ اپریل یا مئی 2020 مقرر کرنے کیلئے پر امید ہیں۔ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ منصوبے میں تاخیر کے باعث اس کی لاگت میں تقریباً 15 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ روپے کی قدر گرنے سے اس کی لاگت 160 ارب روپے سے بڑھ کر تقریباً 250 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس لاگت میں حکومت پنجاب کی طرف سے زمین کی خریداری، سڑکوں کی تعمیر، بجلی، گیس اور دیگر تنصیبات پر اٹھنے والے 40 سے 50 ارب روپے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ٹرین کے 27 کلو میٹر یکطرفہ سفر کیلئے کرایہ 30 سے 40 روپے مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ خبر کے سلسلے میں پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے جنرل منیجر آپریشنز انجینئر سید عزیر شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دسمبر کی 10 یا اس کے آس پاس کی تاریخ میں ٹرین کے آفیشل ٹیسٹ رن کا افتتاح ہوگا جبکہ عوام کیلئے سروس شروع ہونے کی ابھی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ٹرین چلانے اور دیکھ بھال کی کمپنیوں سے تاحال معاہدہ پر دستخط نہیں ہوئے اور جب تک معاہدہ نہیں ہوتا اس ٹرین کو عوام کیلئے چلانے کا وقت نہیں دیا جاسکتا۔