اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جنرل قمر جاوید باجوہ نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کچھ اہداف مقرر کیے جو ” باجوہ ڈاکٹرائن” کہلائے۔اسی ڈاکٹرائن کے تحت سکیورٹی پالیسی دوبارہ تشکیل دینے کے لیے اقدامات ہوئے۔جوابی نہیں پیشگی کاروائی کی بنیاد پر دہشت گردی خاتمے کے لیے فروری 2017ء میں آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا۔
آپریشن رد الفساد کے بڑی اہداف میں ملک سے د ہشت گردوں کے سیلپر سیلز سہولت کاروں کا خاتمہ کیا،جنرل باجوہ نے سعودی عرب،امریکا،قطر سے دوستی کے رشتے میں رکاوٹیں دور کیں۔ باجوہ ڈاکٹرئن نے پاکستان کو گھمبیر صورتحال سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سےسینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے آرٹیکل میں یہ بھی لکھا تھا کہ باجوہ ڈاکٹرائن پڑوسیوں میں نفرت پھیلاکر انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے پر یقین نہیں رکھتابلکہ پاکستان کو دنیا میں ایک مستحکم اورپر امن ملک کے طور پر پہچانے جانے کا خواہاں ہے۔ جب کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا مطلب صرف ایک ہے اور وہ ہےپر امن پاکستان ہے۔وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید ان کے بہترین پسندیدہ آرمی چیف ہیں۔سینئر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران نے آرمی چیف کی حمایت کا خاصا فائدہ اٹھایا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کی طرف سے اب تک ڈالے گئے کسی بھی دباؤ کا زیادہ اثر نہیں لیا۔تاہم اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔اسی میں سوال یہ اٹھتا ہے ” باجوہ ڈاکٹرائن” سے اصل میں کس کو خطرہ ہے؟۔