اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عدالت عظمیٰ کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بحیثیت آرمی چیف عہدے میں دی جانے والی تین سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کیا جانا نہ صرف عمران خان حکومت کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ ایسے فیصلے کے درست ہونے پر بھی کئی بنیادی سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
سینئر صحافی انصار عباسی کی روزنامہ جنگ میں شائع خبر کے مطابق سپریم کورٹ کے منگل کو سنائے گئے فیصلے کے اہم نکات یہ ہیں٭ عہدے پر پہلی مدت کی تکمیل پر چیف آف آرمی اسٹاف کی ملازمت میں توسیع یا عہدے کی پہلی مدت کی تکمیل کے بعد اسی عہدے پر دوبارہ تقرر کے حوالے سے اٹارنی جنرل پاکستان قانون میں کسی شق کا حوالہ پیش نہیں کر پائے۔ ٭ اٹارنی جنرل پاکستان نے واضح انداز سے عدالت کو بتایا کہ پاک فوج کے حوالے سے تمام قوانین میں ایسی کوئی واضح شق نہیں جس کے تحت دوبارہ ملازمت پر رکھا جائے یا چیف آف آرمی اسٹاف کی ملازمت میں توسیع کی جائے۔ ٭ آرمی چیف کے دوبارہ تقرر / توسیع کے حوالے سے جو مقصد بیان کیا گیا ہے وہ ’’علاقائی سیکورٹی صورتحال‘‘ ہے۔ اگر اسی وجہ کو درست مان لیا جائے تو مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والا ہر شخص یہی وجہ بتاتے ہوئے دوبارہ تقرر یا ملازمت میں توسیع کا مطالبہ کرے گا۔ ٭ آرمی ریگولیشنز (رولز) کے ریگولیشن نمبر 255؍، جس کا حوالہ اٹارنی جنرل نے دیا، بادی النظر میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذکورہ شق کا نفاذ اس وقت ہوگا جب کوئی افسر پہلے ہی ملازمت سے ریٹائر ہو چکا ہو اور یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ریگولیشن میں ریٹائرمنٹ کی معطلی یا ریٹائرمنٹ کو محدود کرنے کی بات کی گئی ہے۔
ریٹائرمنٹ سے قبل ریٹائرمنٹ معطل کرنا یا ریٹائرمنٹ کو محدود کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بھی چیز کی ترتیب الٹ دی جائے (چھکڑے کو گھوڑے کے آگے باندھنا)۔ ٭ حکومت کی جانب سے آرمی چیف کے تقرر کا جو طریقہ اختیار کیا گیا اس میں نقص ہے۔ وزیراعظم نے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کو اسی عہدے پر دوسری مدت کے لیے مقرر کرنے کا آرڈر 19؍ اگست 2019ء کو منظور کیا تھا، لیکن آئین کے آرٹیکل 243؍ کے تحت اس عہدے پر تقرر کا اختیار صدر مملکت کا ہے۔
بظاہر اس غلطی کا ادراک اسی دن ہوگیا اور وزیراعظم آفس سے ایک سمری 19؍ اگست 2019ء کو صدر مملکت کو ارسال کی گئی تاکہ موجودہ آرمی چیف کو اسی عہدے پر دوبارہ تقرر / توسیع دی جاسکے، اور اسی دن یعنی 19؍ اگست 2019ء کو صدر مملکت نے سمری منظور کی۔ حتیٰ کہ اس عمل میں بھی خامی ہے اور یہ احساس ہوا کہ وزیراعظم یا صدر مملکت مذکورہ بالا اقدامات کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتے، جس پر اگلے دن یعنی 20؍ اگست 2019ء کو کابینہ کی منظوری کیلئے ایک سمری پیش کی گئی اور 21؍ ا گست 2018ء کو کابینہ نے مذکورہ تجویز سرکولیشن کے ذریعے منظور کی۔ ٭ کابینہ کے 25؍ ارکان سے مشاورت کی گئی اور صرف 11؍ نے تجویز سے اتفاق کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابینہ کی اکثریت نے مذکورہ تجویز کی منظوری نہیں دی۔ ٭ کابینہ کی اس مبینہ یا نام نہاد منظوری کے بعد یہ معاملہ وزیراعظم یا صدر مملکت کو دوبارہ از سر نو ایڈوائس کے لیے یا بالترتیب وزیراعظم اور صدر مملکت کے نئے آرڈر کے لیے نہیں بھیجا گیا۔