ناروے(آن لائن) ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ میں قرآن پاک کی توہین کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک انتہا پسند اور اسلام مخالف تنظیم (سیان) کے کارکنان نے قرآن پاک کو جلانے کی کوشش کی جسے ایک مسلمان نوجوان نے ناکام بنایا۔ تاہم اب مسلم اْمہ کے اس نوجوان ہیرو عمر دابہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بْک پر اپنے اقدام پر ثابت قدم رہنے کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے اپنی فیس بْک پوسٹ میں واقعہ کے بعد پولیس کے کردار پر بھی بات کی۔عمر دابہ کا کہنا ہے کہ میں قرآن پاک کی حْرمت اور حفاظت کے لیے ثابت قدم رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 16 نومبر کو اس واقعہ پر اپنے احساسات اور جذبات بتانا ضروری سمجھا، عمر دابہ نے کہا کہ میں نے یہ کیس عدالت میں لے جانے اور اس کیس کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے اس واقعہ کو رپورٹ کرنے والے میڈیا کے کردار پر بھی تنقید کی اور کہا کہ آپ میں سے کافی لوگ اسلام مخالف تنظیم سیان (Stop Islamization of Norway) کے مظاہرے سے ناواقف ہیں۔ میرے لیے تمام مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے اس واقعہ کی حقیقت کو بیان کرنا بے حد ضروری ہے اور میں وہی کرنے کی کوشش کروں گا۔ انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کرنے اور سپورٹ کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔انہوں نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ اگر پولیس اپنا کام کرتی اور سر عام آگ جلانے پر عائد پابندی کا پاس رکھتی تو صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولیس تھورسن کو اْسی وقت روک لیتی جب انہیں لگا تھا کہ وہ قرآن پاک کو جلانے کی ناپاک جسارت کرنے والا ہے تو ہم بھی وہ نہ کرتے جو ہم نے کیا۔ انہوں نے اپنی فیس بْک پوسٹ میں ناروے کی پولیس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پولیس کے پاس بہت وقت تھا، لیکن انہوں نے مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے سیان کو قانون کی خلاف ورزی کرنے دی،انہوں نے مداخلت کرنے سے قبل ہمارے رد عمل کا بھی انتظار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مشتعل لوگ ہیں،تمام ویڈیوز میں ہمیں تھورسن پر جھپٹتے ہوتے ہوئے دکھایا گیا، جی ہاں ہم نے اسے ٹھوکریں ماریں، اور اس معاملے پر نہ تو میرا معافی مانگنے کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی اس پر کوئی وضاحت پیش کرنے کا۔