اسلام آباد (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے سوال پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم استعفیٰ لینے آئے ہیں دینے نہیں،ا سلام آباد پہنچے کیلئے 26جولائی 2018ء سے کام شروع کر دیا تھا،استعفے کے علاوہ دوسرا آپشن شفاف انتخابات ہیں،موجودہ قوانین کے تحت ہی دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں تو بھی قبول نہیں کریں گے،
سد قیصر کی کوئی حیثیت نہیں، وہ بھی میری طرح فقیر آدمی ہیں، ہمارے کسی سے مذاکرات نہیں چل رہے، کوئی آتا ہے تو انکار نہیں کرتے، حکومت کی طرف سے ٹائم پاس کیا جارہا ہے،ہمارے پاس ایک انچ بھی پیچھے جانے کا راستہ نہیں، ہم تمام کشتیاں جلانے کو تیار ہیں، اس حکومت کو قبول نہیں کر سکتے۔ ایک انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب تک لوگوں کا جو جوش و خروش ہے وہ اپنی موجودگی سے یہ بتا رہے ہیں وہ یہاں تفریح کے لیے نہیں آئے، وہ ایک نظریے کے ساتھ آئے ہیں اور یہ ایک قوم کی آواز ہے لہٰذا اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اتنے بڑے احتجاج کو نظر انداز کیا جائے اس لیے مارچ ختم کرنے کے حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے یہاں تک پہنچنے کیلئے 26 جولائی 2018 سے کام شروع کردیا تھا، اب یہ صورتحال ہے کہ ملک میں ایسی بیداری آئی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، عمران خان ناجائز طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں، اگر وہ ملک کے حالات میں بہتری لاتے تب لوگ ان کی حکومت کا شاید ساتھ دیتے لیکن ان کی حکومت میں ملک روز بہ روز تنزلی کی طرف جارہا ہے، ہم اس طرح کی جمہوریت چاہتے تھے؟ ہم نے قربانیاں اس جمہوریت کے لیے نہیں دی تھیں۔انہوں نے کہاکہ استعفے کے علاوہ دوسرا آپشن شفاف انتخابات ہیں، انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے اس لیے نئے انتخابات کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے، موجودہ قوانین کے تحت ہی دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں تو وہ بھی قبول نہیں کریں گے جبکہ چاہتے ہیں کہ ان انتخابات کے لیے فوج کو بالکل نہیں بلایا جانا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فوج کا ایک مقام اور عزت ہے اور گزشتہ حکومت کا انتخابات کے لیے فوج کو بلانے کا اقدام غلط تھا، فوج انتہائی اہم ادارہ ہے جسے متنازع نہیں بنانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی کی جانب سے پیش کیے گئے چاروں مطالبات تمام اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ مطالبات ہیں، دوبارہ انتخابات کا مطالبہ انہیں ہر صورت ماننا پڑے گا۔حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن و اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے متعلق سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ اسد قیصر کی کوئی حیثیت نہیں،
وہ بھی میری طرح فقیر آدمی ہیں، ہمارے کسی سے مذاکرات نہیں چل رہے، کوئی آتا ہے تو انکار نہیں کرتے، حکومت کی طرف سے ٹائم پاس کیا جارہا ہے۔مطالبات نہ مانے کی صورت میں انہوں نے کہاکہ اس صورت میں ملک میں افراتفری ہوگی، نہ جانے کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا، ہم کسی پر حملہ نہیں کریں گے، ہم گولیاں کھائیں گے، شہادتیں لیں گے اور یہاں سے لاشیں اٹھائیں گے لیکن کسی صورت یہاں سے نہیں جائیں گے، ہم جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو لے کر گھروں سے نکلے ہیں جبکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہے کہ تو حکومت گھر جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ڈیڈ لائن کھینچ چکے ہیں، ہم اس ناروا، ناجائز اور نااہل حکومت کو قبول نہیں کرتے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس ایک انچ بھی پیچھے جانے کا راستہ نہیں ہے، ہم تمام کشتیاں جلانے کو تیار ہیں لیکن اس حکومت کو قبول نہیں کر سکتے۔کرتارپور راہداری کے ذریعے بھارتی سکھ یاتریوں کو بغیر ویزے اور پاسپورٹ ملک میں آنے کی اجازت دینے سے متعلق مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ایک طرف ایل او سی پر تناؤ ہے دوسری طرف آپ کرتارپور آنے کے لیے بھارتی سکھوں کو بغیر پاسپورٹ یا ویزا آنے کی اجازت دی جارہی ہے، یہ ایک ملک کا دو سرحدوں پر ایک ہی ملک کے ساتھ تضاد ہے۔