اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور کے معروف کالج ایم اے او کالج کے پروفیسر افضل محمود نے 9 اکتوبر 2019ء کو زہر کھا کر خود کشی کر لی تھی، افضل محمود ایم اے او کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے، ان کے خلاف ایک طالبہ نے پرنسپل کو درخواست دی تھی جس میں طالبہ نے الزام لگایا تھا کہ یہ ہر آنے والی لڑکی کو دیکھتے ہیں، طالبہ نے کہا کہ مجھے ان کے رویہ پر شدید تحفظات ہیں،
طالبہ نے اپنی درخواست میں مزید کہا کہ مڈٹرم امتحانات سے قبل انہوں نے ایک لڑکی سے کلاس میں کہا تھا کہ میں تو تمہیں ہاتھ لگا سکتا ہوں، طالبہ نے لکھا کہ ہم نے اس بات کی شکایت کی لیکن اس کے باوجود ایکشن نہیں لیا گیا اور وہ دوبارہ کلاس لینے آ گئے، طالبہ نے اپنی درخواست میں الزام لگایا کہ افضل محمود ہر آنے والی لڑکی کو گھورتے ہیں اور اس کے میک اور لباس کی تعریف بھی کرتے ہیں، طالبہ کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات سے لیکچرار افضل محمود شدید دباؤ اور پریشانی کا شکار تھے، اس تمام معاملے کی تحقیقات کی گئیں تو لیکچرار بے قصور نکلے، اس پر انہوں نے طالبہ کی جانب سے اپنے اوپر لگائے الزامات میں کلیئر ہونے پر کلیئرنس سرٹیفکیٹ مانگا لیکن انہیں سرٹیفکیٹ نہ مل سکا جس کی وجہ سے انہوں نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، خودکشی کرنے سے قبل افضل محمود نے ایک تحریر لکھی جس میں انہوں نے کہا کہ میں اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر رہا ہوں اور ان کی موت کے بارے میں کسی سے نہ تفتیش کریں اور نہ ہی کسی کو زحمت دیں، پولیس اور میڈیکل رپورٹ سے ان کی خود کشی کی تصدیق ہو گئی ہے، واضح رہے کہ خود کشی سے ایک روز قبل اپنی سینئر ساتھی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمان جو کہ کالج کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ تھیں انہیں بھی خط لکھا، اس خط میں انہوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہراساں کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کے باوجود ابھی تک تحریری طور پر کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے سے آگاہ کیوں نہیں کیاگیاہے،
انہوں نے ڈاکٹر عالیہ کو لکھا کہ یہ بات ہر طرف پھیل چکی ہے کہ جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور جب تک کمیٹی مجھے تحریری طور پر اس الزام سے بری نہیں کرتی میرے بارے یہی تاثررہیگا کہ میں ایک برے کردار کا شخص ہوں، انہوں نے ڈاکٹر عالیہ کو لکھے گئے خط میں خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یا تو تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کر لی جائے تاکہ میرے علاوہ باقی اساتذہ جو طلبہ کے ساتھ پڑھائی کے معاملے میں سختی کرتے ہیں یا انہیں امتحان میں کارکردگی کے مطابق نمبر دیتے ہیں نہ کہ دباؤ کے تحت، ان کو بھی مستقبل میں اس طرح کے الزامات سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے انکوائری کمیٹی کی سربراہ کو لکھا کہ اس جھوٹے الزام کی وجہ سے میرا خاندان پریشانی کا شکار ہے، آج میری بیوی بھی مجھے بدکردار قرار دے کر جا چکی ہے، لیکچرار نے کہا کہ میرے پاس زندگی میں کچھ نہیں بچا، انہوں نے میں اب کالج اور گھر میں ایک بدکردار آدمی کے طور پر جانا جاتا ہوں اور اسی بدولت میرے دل اور دماغ میں ہر وقت تکلیف ہوتی ہے، تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ کو لکھے گئے خط کے آخر میں انہوں نے رلا دینے والی بات کر دی انہوں نے لکھا کہ اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بری ہونے کا خط ان کی ماں کو دے دیا جائے۔ ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ تحقیقات میں کلیئر ہو گئے تھے لیکن انہیں کلیئرنس سرٹیفکیٹ نہ دیا جا سکا۔