بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بلاول زرداری کابھی  حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلانے کا اعلان،لاڑکانہ کا الیکشن ایک بارپھر تسلیم کرنے سے انکارکردیا

datetime 18  اکتوبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سلیکٹرز ملک میں جمہوریت بحال کریں۔ کراچی کے لوگوں نے خان کو گھر بھیجنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی خان کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان کو اپنے ظلم کا حساب دینا ہو گا، اب گھر جانا ہو گا۔پیپلز پارٹی عوام کی طاقت سے سلیکٹڈ حکمرانوں کو اٹھا کر باہر پھینک دے گی،

سلیکٹرز کو حکمرانوں کی پشت پناہی چھوڑنا ہو گی۔ اب ہم خاموش نہیں رہ سکتے، خان کی دھاندلی زدہ حکومت کو بے نقاب کرکے رہیں گے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ سیاسی مخالفین کے خلاف نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے ہتھکنڈے ماضی میں بھی استعمال کیے گئے۔ ہم نہ پہلے ڈرے تھے اور نہ آئندہ ڈریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران نے کراچی کو دھوکہ دیا ہے اور کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ میں کراچی کا بیٹا ہوں۔ کراچی کا حصہ وفاق سے چھین کر رہوں گا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ لاڑکانہ میں پہلے بھی دھاندلی ہوئی اور اب دوبارہ دھاندلی کی گئی۔ ہم دھاندلی پر خاموش نہیں رہیں گے اور اپنی سیٹ واپس لینے کے لیے ہر فورم پر جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مزار قائد پر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے تحت سانحہ شہدا کارسازاور سلیکٹڈ حکومت کی ناکامی کے خلاف جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے مرکزی اور صوبائی رہنما، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹر اور پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے رہنما بھی موجود تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر کا آغاز ان اشعار سے کیا ” شہادتوں کے علم جب بلند ہو جائیں تو جہاں میں رسوا یزید ہوتے ہیں۔۔۔۔۔عظیم باپ کی بیٹی بتا گئیں کہ حسین والے شہید ہوتے ہیں۔ ” بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جس سوچ اور فلسفے سے اپنا سفر شروع کیا، اسے آج پچاس سال بیت گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے 50 سالہ سیاسی سفر میں اتار چڑھا دیکھے ہیں۔

سانحہ کارساز کا غم اسی سفر میں ہمیں دیکھنا پڑ ا۔ سانحہ 18 اکتوبر کی تلخ یاد میں آج بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ 18 اکتوبر کے شہدا کو ہم بھولے ہیں نہ بھول سکتے ہیں۔ 77 شہدا کی قربانیوں کی مثال نہیں ملتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2 ہزارکا سال ایک تاریک اور عوام کے لیے بھاری سال تھا۔ ایک طرف ایک آمر خدا بن کر حکمران بنا ہوا تھا اور دوسری طرف آمر کے ساتھی ملک میں خون کی ہولی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو اپنی جان قربان کر گئیں مگر آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

وہ اپنی جان کی قربانی دے کر بھٹو کے فلسفے کو امر کر گئیں۔ انہوں نے کہاکہ کیا یہ وہ پاکستان ہے، جس کے لیے بھٹو نے پھانسی کا پھندا قبول کیا، جس کا خواب اکابر نے دیکھا، آج جس طرف نظر دوڑائیں ظلم، نا انصافی، استحصال نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ظالم دہشت گرد کو ن تھے، جنہوں نے دنیا میں پاکستان کا چہرہ مسخ کیا اور بے گناہوں کا خون بہایا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آج کون عوام کی حاکمیت سے انکاری ہے۔ کس نے اس ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھواکر معاشی خود مختاری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ

سی پیک پر کام بند کر دیا گیا اور معیشت ڈوب رہی ہے۔ اندھے کو  بھی نظر آ رہا ہے کہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سلیکٹڈ حکومت کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ سلیکٹڈ لوگ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار 2018  میں 3 روز تک انتخابی نتائج نہیں دیئے گئے۔ سیاسی مخالفین کو جیل میں بھیجا اور نااہل کیا گیا جبکہ کالعدم تنظیموں کو مین اسٹریم میں لا کر انتخاب جتوایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ضیا اور مشرف کے دور میں بھی فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر تعینات نہیں کی گئی

مگر خان کے لیے ایسا کیوں کیا گیا۔ فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر کیوں تعینات کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ ادارے تحریک انصاف کے نہیں ہیں، ہم سب کے ادارے ہیں۔ مگر جب ادارے خاص مقاصد کے لیے استعمال کیے جائیں گے تو یہ متنازع ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ ضمنی انتخاب میں بھی یہی عمل دہرایا گیا کہ سکیورٹی اہلکار ووٹر لسٹ چیک کررہے تھے۔ لاڑکانہ میں اندر اور باہر کا کھیل کھیلا گیا۔ خواتین ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ ہم کب تک اپنے ووٹ کی چوری برداشت کرتے رہیں گے ہم جھوٹ کو سچ نہیں مانتے۔

لاڑکانہ میں پہلے بھی دھاندلی ہوئی، اب بھی دھاندلی کو بے نقاب کریں گے۔ پورے ملک میں سلیکٹڈ حکومت اور اس کے نظام کو بے نقاب کریں گے۔ ہم اپنی سیٹ واپس لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ سلیکٹڈ حکمران عوام کے ووٹوں سے نہیں کسی اور کی خواہش پر آتے ہیں۔ اور جب کسی کی خواہش پر آتے ہیں تو عوام پر بوجھ ڈالتے اور اپنے لانے والوں کو خوش کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ خان کی دھاندلی زدہ حکومت کو بے نقاب کریں گے۔ سلیکٹرز کو حکمرانوں کی پشت پناہی چھوڑنی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ داخلی خارجی اور معاشی محاذ پر ناکام عمران حکومت کا ساتھ دینا ذاتی مفاد ہو سکتا ہے

مگر یہ ملکی مفاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان میں اہلیت ہے نہ 20 کروڑ عوام کے مسائل سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ عمران حکومت نے پارلیمنٹ کو تالا لگا دیا ہے۔ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے 10 ہزار چار سو ارب روپے کا قرض لے کر ماضی کا ریکارڈ توڑ دیا۔ عمران نے کہا تھا کہ خود کشی کروں گا، قرض نہیں لوں گا، جس سے قرض لیا ان کا گورنر اسٹیٹ بینک لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران نے کراچی کے لیے جو وعدے کیے وہ پورے  نہیں ہوئے۔ کراچی کے لیے نوکری، پانی کی فراہمی، غریبوں کے لیے گھروں کے اعلان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ عمران نے کراچی کو دھوکہ دیا ہے

اور کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ یہ خود بھی کام نہیں کرتے اور کسی کو کام کرنے بھی نہیں دیتے۔ آپس میں دست و گریباں کرنے کے لیے 239 کا حربہ آزماتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ میں کراچی کا بیٹا ہوں کراچی میں پیدا ہوا ہوں۔ میں کراچی کا حصہ وفاق سے چھین کر رہوں گا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران کا ہر وعدہ، ہر دعوی جھوٹا نکلا۔ نوکریاں دے نہیں سکے، الٹا لوگوں کو بے روزگار کیا۔ لوگوں کے سر سے چھت چھینی جا رہی ہے۔  اس وقت مزدور، کسان، سرکاری ملازمین، ڈاکٹر اور ملا بھی سڑکوں پر ہیں۔ کیا یہ وہ نیا پاکستان ہے، جس کے خواب خان نے دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت مسائلستان اور احتجاجستان بن چکا ہے۔ خطرہ ہے کہ ملک

معاشی ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ سیاسی مخالفین کو پکڑنے کے لیے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کو پانچ ماہ سے جیل میں رکھا ہوا ہے۔ جیل میں نیب کے ڈاکٹر چیخ رہے ہیں کہ آصف زرداری کا علاج کرایا جائے مگر ضدی حکومت عدالتی احکامات پر عمل نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ججز کے خلاف ریفرنسز بنائے جا رہے ہیں۔ عمران خان سن لو ہم پہلے کبھی ایسے ہتھکنڈوں سے ڈرے ہیں نہ آئندہ کبھی ڈریں گے۔ جابر آمر ضیا کا مقابلہ کیا ہے۔ مشرف کا مقابلہ کیا ہے۔ تم کہاں کے خان ہو، کس کھیت کی مولی ہو۔ عوام کی طاقت سے ہم حکمرانوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ

سلیکٹڈ حکمرانوں کی پارٹی عوام کے سیلاب کے سامنے ریت کی طرح بھکر جائے گی۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان کو اپنے ظلم کا حساب دینا ہو گا، گھر جانا ہو گا۔ اب ساری حزب اختلاف نے آپ کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بلاول بھٹو نے شرکا سے عہد لیا کہ کیا آپ عمران خان کو گھر بھیجنے کے لیے میرے ساتھ ہیں تو شرکا نے ہتھ بلند کرکے بلاول بھٹو سے یکجہتی کا اظہار کیا اور گو نیازی گو کے نعرے لگائے۔ بلاول بھٹو نے تحریک کے آئندہ کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 23 اکتوبر کو تھرپار کر اور 26 اکتوبر کو کشمور جبکہ یکم نومبر سے پنجاب میں انٹری دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سلیکٹرز سے ہمارا مطالبہ ہے کہ جمہوریت بحال کرو ہم جعلی جمہوریت کو نہیں مانتے۔ بلاول بھٹو نے اپنی تقریر کا اختتام مک گیا تیرا شو، گو عمران، گو عمران کے نعرے پر کیا اور انہوں نے نعرے لگوائے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…