کراچی( آن لائن) توانائی کی قیمتوں میں ممکنہ تبدیلی، بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ٹیکسز میں اضافے کے سبب مہنگی غذائی اجناس کے باعث مشکلات کے شکار صارفین کے لیے مالی 2020 میں بھی مہنگائی کی شرح کافی بلند رہنے کا امکان ہے۔
پاکستان اقتصادی سروے 19-2018 میں کنزیومر پرائس انڈیکس کے عنوان کے تحت تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مالی سال 2019 میں مہنگائی کی شرح سے 7 سے 8 فیصد رہے گی، یوٹیلیٹی کی بلند قیمتیں اور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی آئندہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی پر مزید دباؤ بڑھائیں گی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے شائع کردہ حالیہ سروے کے مطابق گزشتہ 2 سالوں کے درمیان مالی خسارے میں اضافے کے باعث طلب میں دباؤ دیکھنے میں آیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صنعتی افراد حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ کاروبار کی لاگت میں کمی اور غذائی اشیا کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے متعدد ٹیکس اور ڈیوٹیز ختم کی جائے۔تاہم مارکیٹ قوتوں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی غذائی قلت پیدا کرنے کی وجہ سے ملک میں طلب کے باعث ہونے والی مہنگائی دیکھنے میں آئی۔اس کا زیادہ اثر غیر غذائی اشیا میں ہوگا۔