اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں دوسری مرتبہ مجھے بولنے نہیں دیا گیا، پچھلے سیشن میں بھی مجھے بولنے نہیں دیا گیا، انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ کے ایم این اے کو قومی اسمبلی میں بولنے نہیں دیا گیا، انہوں نے کہا کہ سپیکر نے یقین دلایا تھا کہ آئندہ اجلاس میں آپ کو بولنے کا موقع دیا جائے گا
لیکن بدقسمتی سے اس اجلاس میں بھی مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا گیا، آج تین وزراء کو بولنے کا موقع دیا گیا لیکن مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا گیا، حکومت کا رویہ یہ ہے کہ مارتے ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے، سنگین الزامات کے باوجود شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے، ایسا رویہ پرویز مشرف اور ضیاء الحق کے دور میں بھی نہیں دیکھا گیا جو نئے پاکستان کی اسمبلی میں دیکھ رہے ہیں، ایوان میں ڈپٹی سپیکر کا رویہ قابل مذمت ہے فوری طور پر عہدے سے استعفیٰ دیں، میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتا ہوں،یہ حکومت سلیکٹڈ اپوزیشن، سلیکٹڈ میڈیا اور سلیکٹڈ عدلیہ چاہتی ہے، حکومت اظہار آزادی پر پابندی لگا رہی ہے، سازش کے تحت عدلیہ پر بھی حملہ کیا گیا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ سی ای سی کے اجلاس کے بعد دوبارہ میڈیا سے بات کروں گا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے نیب کے ہاتھوں سابق صدر مملکت و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی گرفتار ی کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے۔پیپلز پارٹی کے جیالوں نے آصف علی زرداری کی گرفتاری کے خلاف لاہور میں گڑھی شاہو اور فیروز پور روڈ پر ٹائرجلا کر احتجاجی مظاہرے کئے۔ کارکنوں نے فیروز پور روڈ پر میٹرو بس سروس کو بھی معطل کر دیا جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن نیب گردی بند کرو، ایک زرداری سب پہ بھاری، نیب نیازی گٹھ نا منظور کے نعرے لگاتے رہے جبکہ اس موقع پر خواتین کارکنان نے سینہ کوبی بھی کی۔کچھ دیر احتجاج کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکن پر امن طور پر منتشر ہو گئے جس کے بعد شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔ علاوہ ازیں آصف علی زرداری کے خلاف حکمت عملی اپنانے کے لئے پیپلز پارٹی پنجاب کا ہنگامی اجلاس منگل کے روز لاہور میں طلب کر لیا گیا۔