اسلام آباد( آن لائن ) چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے موبائل فون ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر شہری ٹیکس دینے کے قابل ہے حکومت کو ایسا میکنزم بنانا چاہیے کہ انکم ٹیکس نہ دینے والوں کو سرٹیفکیٹ نہ لینا پڑے ۔ ریاست یہ سمجھتی ہے کہ شہری خود نشاندی کرے گا کہ وہ ٹیکس دیا یا نہیں کتنے لوگ ہیں جو ایڈوانس ٹیکس کا ریفنڈ مانگتے ہیں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کب کہاں کتنا ٹیکس لگانا ہے ؟
یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے اس قانون کا صحیح نفاذ کیا ہے یا نہیں ؟ اس قانون کی وجہ سے بہت بڑی رقم عوام کی جیبوں سے نکالی گئی ۔کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایڈوانس ٹیکس تعریف کے اعتبار سے انکم ٹیکس ہے ایک صارف جو ٹیکس دینے کی تعریف میں نہیں آتا وہ کیسے ٹیکس دے سکتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ایسا میکنزم بنائے تاکہ نان فائلر سے ٹیکس نہ لیا جائے قانون کے مطابق جو شخص ٹیکس نہیں دینا چاہتا اس سے پہلے کمشنر سے سرٹیفکیٹ لینا ہوگا موبائل کارڈ خریدتے وقت نہیں بلکہ لوڈ کرتے وقت ٹیکس کاٹ لیاجاتا ہے کارڈ لوڈ ہونے کے بعد کیسے سرٹیفکیٹ دی جائے کیا ریڑھے پر بیٹھا شخص ریفنڈ کیلئے انکم ٹیکس کمشنر کے پاس جائے گا ریاست کو اپنے شہریوں کے ساتھ مخلص ہونا چاہیے ایسا نہیں کہ جو ریفنڈ مانگ لے اس کو دے دیں ریاست کولوگوں کی جیبوں سے اس طرح کا پیسہ نہیں نکالنا چاہیے جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ ہمیں انکم ٹیکس کے ساتھ یوٹیلٹی ٹیکس کا بھی جائزہ لینا ہوگا اٹارنی جنرل آف پاکستان انور مسعود نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ موبائل کارڈ پر ہر صارف کو ایڈوانس ٹیکس دینا ہوتا ہے جس صارف پر انکم ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا وہ ریفنڈ لے سکتا ہے پی ٹی اے کے وکیل نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے صرف ایک نقطہ سے ٹیکس کٹوتی کے قانون کو معطل کردیا ہے قانون معطل ہونے سے نوے ارب روپے کا ٹیکس ضائع ہوگیا عدالت نے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی ۔