زندگی کے بارے میں کہتے ہیں یہ میوزیکل چیئر ہے‘ دکھ اور سکھ کی دو کرسیاں ہیں اور کھیل میں شامل لوگ باری باری ان کرسیوں پر بیٹھتے اور اٹھتے رہتے ہیں‘ آج آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ احتساب کی کورٹ نمبردو میں پیش ہوئیں‘ زرداری صاحب آج اس کرسی پر بیٹھے جس پر چند ماہ پہلے تک میاں نواز شریف بیٹھتے تھے اور فریال صاحبہ کو مریم نواز کی کرسی ملی‘ آپ دیکھ لیجئے کرسیاں بھی وہی ہیں‘
عدالت بھی وہی ہے‘ جج بھی وہی ہے اور مقدمات بھی وہی ہیں‘ صرف ملزم بدلے ہیں‘ اللہ نہ کرے‘ اللہ نہ کرے کل کو عمران خان کو بھی اسی عدالت میں اسی کرسی پر بیٹھنا پڑ جائے کیونکہ پاکستان کی تاریخ ہے یہاں جو شخص کرسی پربیٹھتا ہے وہ کرسی سے اٹھ کر جیل ضرور جاتا ہے‘ ہو سکتا ہے عمران خان یہ تاریخ بدل دیں لیکن یہ یاد رکھیں زندگی اگر میوزیکل چیئر ہے تو پھر کرسی سے اٹھنا ضرور پڑے گا اور انسان اگر ایک بار اقتدار کی کرسی سے اٹھ جائے تو پھر اسے ملزم کی کرسی پر بھی بیٹھنا پڑتا ہے ‘ آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز شریف دونوں کے خلاف نیب کی کارروائیاں تیز ہو گئیں‘ آج تک کی تاریخ کے مطابق احتساب کے اس عمل کا اپوزیشن کو کوئی نقصان نہیں ہوا اگر کسی کو نقصان ہوا تو وہ حکومت ہے‘ میاں شہباز شریف گرفتار ہوئے تھے تو اپوزیشن نے قومی اسمبلی نہیں چلنے دی تھی‘ قومی اسمبلی اس وقت تک ایک مفلوج ادارہ ہے‘ اس میں آٹھ ماہ میں احتجاج اور بائیکاٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوا‘ حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں‘ یہ بھی اگر گرفتار ہو جاتے ہیں تو پھر پنجاب اسمبلی کا کام بھی ٹھپ ہو جائے گا یوں وفاق اور سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی مفلوج ہو کر رہ جائے گی‘ اس کا نقصان کس کو ہوگا‘ ن لیگ کا دعویٰ ہے عثمان بزدار کی حکومت بچانے کیلئے حمزہ شہباز کو گرفتار کیا جا رہا ہے‘ یہ الزام کس حد تک درست ہے اور وزیر خزانہ اسد عمر نے قوم کو ایک نئی تاریخ دے دی، کیا ڈیڑھ سال بعد یہ ملک واقعی معاشی طور پر مستحکم ہو گا۔