’’یہ کہانی ہے سکاٹ لینڈ کے ایک غریب کسان کی جو ایک روز کھیتوں کی طرف جا رہا تھا تب رستے میں اس نے ایک جانب سے کسی کے چیخنے کی آواز سنی وہ فوراً اس جانب گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بچہ دلدل کے ایک جوہڑ میں ڈوب رہا ہے کسان نے اسے تسلی دی اور پرسکون کیا پھر درخت کی ایک شاخ توڑ کر بچے سے کہا یہ پکڑ لو میں تمہیں کھینچ لیتا ہوں کچھ دیر کی کوشش کے بعد
بچہ باہر نکل آیا کسان نے بچے سے کہا میرے گھر چلو میں تمہارے کپڑے صاف کرا دیتا ہوں لیکن بچے نے کہا میرے والد صاحب انتظار کر رہے ہوں گے اور یہ کہ کر وہ بھاگ گیا۔ اگلی ہی صبح کسان اٹھا تو اس نے دیکھا گھر کے باہر ایک خوبصورت بگھی کھڑی ہے پھر اس بگھی میں سے ایک رعب دار شخص نمودار ہوا۔ اس نے کسان کا شکریہ ادا کیا اور کہا! میں آپکو اسکا کیا صلہ دوں؟ کیونکہ آپ نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔ غریب کسان نے کہا! آپ کا شکریہ جناب میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی کرتا مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں۔ اُس رئیس نے بہت اصرار کیا لیکن کسان نے قبول نا کیا تو جاتے جاتے اسکی نظر کسان کے بیٹے پر پڑی کہنے لگا! کیا یہ آپ کا بیٹا ہے؟ کسان نے محبت سے بیٹے کا سر سہلاتے ہوئے کہا جی جناب یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ رئیس بولا! چلو ایک کام کرتے ہیں میں اسکو اپنے ساتھ لندن لے جاتا ہوں اسے پڑھاتا ہوں۔ بیٹے کی محبت میں کسان نے وہ پیشکش قبول کر لی۔ اسکا بیٹا لندن چلا گیا پڑھنے لگا اور اتنا پڑھا کہ دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں دنیا اسے’’الیگزینڈر فلیمنگ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ جی ہاں وہ فلیمنگ جس نے پینسلین ایجاد کی۔ وہ پینسلین جس نے کروڑوں لوگوں کی جان بچائی۔ اور وہ رئیس جس کے بیٹے کو کسان نے دلدل سے نکالا تھا وہی بیٹا جنگِ عظیم سے پہلے ایک بار پھر ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا پھر دوبارہ فلیمنگ کی پینسلین سے اسکی زندگی بچائی گئی۔ اور آپ جانتے ہیں وہ رئیس کون تھے؟ وہ رئیس روڈولف چرچل تھے اور انکا بیٹا ونسٹن چرچل تھا وہ چرچل جو جنگ عظیم میں برطانیہ کا وزیراعظم تھا اور اس نے کہا تھا ’’بھلائی کا کام کریں کیونکہ بھلائی پلٹ کر آپ کے پاس ہی آتی ہے’’ بظاہر کسان کی طرف سے کی گئی وہ چھوٹی سی بھلائی تھی لیکن سوچیں اس سے کتنا فائدہ ہوا۔