لندن(این این آئی)برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ انقلاب کے چالیس سال کے بعد بھی ایران کو سخت گیر کنٹرول کررہے ہیں اور وہ ریاست کے اندر ایک نظریہ بن چکا ہے۔عرب ٹی وی سے بات چیت میں انہوں نے کہاکہ ایران انتہا پسند گروپوں کے ذریعے اپنے اثر ونفوذ کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی ملیشیا اس کی مثالیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ
ایران مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بھی حمایت نہیں کرتا ہے اور اس نے شام میں اسد رجیم کی حمایت کی ہے۔ جوہری سوال بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جوہر ی طاقت کے ساتھ یہ نظام بہت ہی تباہ کن اور خطرناک ہوگا لیکن جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بغیر بھی ایران عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اثر ونفوذ رکھتا ہے۔ٹونی بلیئر کے خیال میں مشرقِ اوسط میں کشمکش کے حوالے سے مغرب کا محدود نقطہ نظر بھی ایک مسئلہ ہے۔ انھوں نے اس کی مزید وضاحت کی کہ یہ سنی بمقابلہ شیعہ یا ایران بمقابلہ سعودی عرب ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں آیندہ ہفتے ہونے والی کانفرنس اس سمت کی جانب ایک اہم قدم اور اہمیت کی حامل ہے۔یہ کانفرنس امریکا ، برطانیہ ، یورپ اور خطے میں موجود طاقتوں کے درمیان اتحاد کی تشکیل کے ضمن میں بھی اہمیت کی حامل ہے۔خطے کے ان ممالک کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ ایران ایک شیعہ قوم ہے یا ایران سے ایرانی مفادات کی بنا پر معاملہ کیا جارہا ہے بلکہ وہ اس اصول پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ مذہب کی سیاست میں اپنی ایک خاص جگہ ہونی چاہیے۔