کراچی(این این آئی)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر ٹیکس سے بچنے اور دولت چھپانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کی جانے والی سرمایہ کاری کی نگرانی اور خریداروں کی شناخت کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے لین دین کی دستاویز میں قیمت کم رکھنے کا قانونی راستہ کھلا ہوا ہے جس سے ٹیکس واجبات کم رکھنے والوں کے ساتھ ذرائع آمدن اور دولت چھپانے والے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
معاشی جائزہ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 70 سے 91 فیصد کے درمیان ہے، اور پوشیدہ طور پر کمایا گیا منافع کا بیشتر حصہ ملک کی پراپرٹی مارکیٹ میں شامل ہوجاتا ہے۔مرکزی بینک کے مطابق پاکستان میں صوبائی ٹیکس واجبات بشمول کیپیٹل ویلیو ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور اسٹامپ ڈیوٹی کے تخمینے کے لیے ضلعی کلکٹر کی شرحیں استعمال کی جاتی ہیں یہ شرحیں املاک کی حقیقی قیمت سے نمایاں طور پر کم ہیں اور ان میں پایا جانے والا فرق مختلف شہروں کے لحاظ سے دو تا پانچ گنا تک ہے۔ ایف بی آر نے 2016 میں کیپیٹل گین ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی وصولی کے لیے قیمت کے جدول متعارف کرائے تھے جو ڈی سی کی شرحوں سے زائد تاہم حقیقی قیمتوں سے بہت کم تھے۔ پنجاب حکومت نے 2018میں نظر ثانی کرتے ہوئے اکثر علاقوں کے لیے ڈی سی کی شرحیں بڑھادیں اور انہیں ایف بی آر کی قیمتوں کے نزدیک کردیا تاکہ پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ سے ٹیکس وصولی بڑھائی جاسکے تاہم باقی صوبوں میں یہ شرحیں جوں کی توں برقرار ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ فعال ہونے کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس لحاظ سے ٹیکس وصول نہ کرسکیں مجموعی ٹیکسوں میں پراپرٹی کے شعبہ سے حاصل کردہ ٹیکسوں کے شیئر کے لحاظ سے ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان کی کارکردگی کمزور رہی۔
.رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلا دیش میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے جی ڈی پی کے 0.2 فیصد جب کہ مجموعی محاصل کا 2.1 فیصد رئیل اسٹیٹ سے جمع کیا گیا ، برازیل میں یہ شرحیں بالترتیب 1.5 فیصد اور 3.5 فیصد رہیں، چین کی جی ڈی پی کے 0.3 فیصد کے مساوی وصولیاں رئیل اسٹیٹ سے کی جاتی ہیں جبکہ مجموعی ٹیکس وصولیوں میں رئیل اسٹیٹ کا حصہ 0.9 فیصد ہے۔ بھارت میں یہ شرح سب سے بلند بالترتیب 0.8 فیصد اور4.8 فیصد ہے انڈونیشیا جی ڈی پی کا 0.4 فیصد اور مجموعی ٹیکسوں کا 2.7 فیصد پراپرٹی ٹیکس سے وصول کرتا ہے ۔
جبکہ جنوبی افریقہ میں یہ شرح بالترتیب 1.4فیصد اور 3.7فیصد ہے پاکستان میں پراپرٹی ٹیکسوں کا جی ڈی پی سے تناسب صفر فیصد ہے جبکہ مجموعی ٹیکسوں میں پراپرٹی ٹیکس کا حصہ 0.4فیصد ہے جو زیر تقابل ملکوں میں سب سے پست ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹیکس چرانے اور آمدنی چھپانے کے لیے رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے بڑے شہروں میں پراپرٹی کی مارکیٹ دبا کا شکار ہے۔
جب کہ سرمائے پر بھاری منافع کمانے کی امید پر بھی بہت سے لوگ اس شعبہ میں سٹہ باز انہ اور قلیل مدتی سرمایہ کاری کرتے ہیں، ان سب عوامل کے نتیجے میں پراپرٹی مارکیٹ میں نرخوں کا دبا برقرار رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون 2011 سے جائیدادوں اور پلاٹوں کی قیمتیں تقریبا تین گنا ہوچکی ہیں جب کہ مکانات کے نرخ 139 فیصد تک بڑھ چکے ہیں، اسٹیٹ بینک کے مطابق رہائشی مکانات کے مقابلے میں پلاٹوں کی قیمتوں میں نسبتا تیزی سے اضافہ بڑے شہروں کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سٹہ بازانہ دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اس رجحان کی روک تھام کے لیے حکومت پر زور دیا ہے کہ رئیل اسٹیٹ شعبہ کے لیے اعلان کردہ اصلاحات کا فوری نفاذ کیا جائے۔