ینگون(این این آئی) میانمار میں مغربی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی ظلم و جبر کے واقعات کے بعد شمالی ریاستوں سے ہزاروں مجبور خواتین کو جبری شادی کے لیے چین اسمگل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی ادارے جونز ہوپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی جانب سے اپنے طرز کی پہلی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ جنگ زدہ علاقے کیچن اور شمالی ریاست شان سے ایک اندازے کے مطابق 7 ہزار 500 خواتین کو جبری شادی کے لیے چین بھیج دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ چین میں دہائیوں سے ایک بچہ پالیسی کے نتیجے میں مردوں کے مقابلے میں 3 کروڑ 30 لاکھ خواتین کم ہیں۔رپورٹ کے مطابق اس خلا کو پر کرنے کے لیے کمبوڈیا، لاوس، میانمار اور ویت نام سے ہزاروں غریب خواتین کو سالانہ دلہنوں کے طور پر بیچا گیا جن میں سے چند اپنی مرضی سے گئیں جبکہ دیگر یا تو دھوکا دے کر یا پھر اسمگلنگ کے ذریعے چین پہنچا دیا گیا۔میانمار واپس آنے والے، اس طرح کے واقعات سے بچنے والے کئی افراد اور چین میں موجود دیگر افراد سے انٹرویو کی بنیاد پر ترتیب دی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اسمگل کی گئی اکثر خواتین کو اپنے شوہروں کے لیے ایک بچہ لانے پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔رپورٹ کے مصنف ڈبلیو کورٹ لینڈ رابنسن کا کہنا تھا کہ میانمار سے خواتین اس لیے جارہی ہیں کیونکہ وہاں پر تنازعات، بے گھر اور غریبی جیسے مسائل کا سامنا ہے جبکہ چین میں بالخصوص مضافاتی علاقوں میں مرد اور خواتین کی تعداد میں عدم برابری کے نتیجے میں مردوں کو ایک بیوی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔میانمار کی ریاست شان اور کیچن میں فیلڈ ریسرچ کرنے والی کیچن ویمنز ایسوسی ایشن کی سربراہ مون نائے لی کا کہنا تھا کہ محققین کو ایک خاتون نے بتایا کہ انہیں تین مرتبہ چین اسمگل کیا گیا اور تینوں مرتبہ بچے کی پیدائش کے لیے دباؤڈالا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی عدم استحکام، تنازع اور زمینوں کو ہتھیانے کے باعث خواتین کی سلامتی ایک بڑا امتحان ہے۔